جاتے موسم پلٹ بھی آتے ہیں۔۔۔

تین روز کی مسلسل بارش نے تو جل تھل مچا دیا۔ سبزہ دُھل کر نکھر گیا۔بہار کے ان دنوں درخت سبزلباس میں جو نمایاں ہو چلے تھے۔ وہ تو مزیدصاف و شفاف ہو کر ہوامیں لہرانے لگے۔وہ کوٹیاں اور کپڑے جو تیار رکھے تھے کہ بڑی الماری میں اگلے سرما کےلئے روپوش کردیں ۔پھر بستروں کی بڑی پیٹی میں کہیں گم کریں ۔وہ پہناوے از سرِ نوپہن لئے ہیں۔ پوچھا سردی ہے ۔ کیونکہ ہمیں توٹھنڈ لگ رہی تھی۔ سوچا کہیں بیمار شمار تو نہیں ہو گئے ۔مگر جواب ملا جی جی سردی ہے ۔سردی پھر ہوگئی ہے ۔حالانکہ دس روز پہلے موسم کی یخی اپنے منطقی اختتام تلک چلی آئی تھی۔پھر پانچ روز پہلے کی چلنے والی اچانک کی ہوا نے تو جیسے سینے میں تیر سے چلا دیئے۔ ہم نے تو سویٹر اتار دیا تھا۔شاید یہی جرم تھا۔ پھر جوںسینہ خراب ہوا تو کھانسی نے آن گھیرا ۔بخار کی سی کیفیت ۔ہم تو کچھ اور سمجھے تھے۔ مگر بچ گئے۔ دوا دارو کیا ۔شکر ہے کہ واپس اپنی صحت پر لوٹ آئے۔تین روز کے مینہ نے تو کہیں کا نہ رکھا ۔نہ کہیں جانے کے قابل اورنہ ہی کہیں سے واپس آنے کے لائق رہے۔جہاں بیٹھے تو وہیں کے ہو رہے ۔”حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے“۔اب بارش رکے تو اپنے کام کےلئے نکلیں۔مگر بارش نے تو تابڑ توڑحملے شروع کر دیئے۔ موسم تو دھوکا دیتے ہیں۔ذرا بارش ہوئی اور ہم گھر سے باہر روانہ ہوئے۔ آدھے راستے میں کہ نہ واپس آ سکتے تھے ۔ پھر نہ ہی آگے پیش قدمی کر سکتے پھنس گئے۔ کافی دیر بعد جب بہتری کے آثار نمایاں نہ ہوئے ۔بارش کے تیور تیکھے محسوس ہوئے تو کوئیک مارچ کیا اور خوب بھیگ کر واپس گھر کے دروازے میں داخل ہوئے۔لگتاہے کہ اب تو نئے سرے سے سرمائی ہوا¶ں کا آغاز ہے۔ مگر موسم کی تبدیلیاں تو دنیا بھر میں شناخت رکھتی ہیں۔فراز کا شعر دیکھیں” یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے ۔کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں“۔یہ کیفیت بھی عارضی ہے ۔ اب ہفتہ دس دن اور گزریں گے تو گرمی کا احساس ہونے لگے گا۔ دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے۔ اسی ماہ کے شروع میں تو کیڑے مکوڑے جو چھپ کر دم سادھے بیٹھے تھے دیواروں پر رینگنے لگے تھے۔پھر جب موسم کی ٹھنڈی لہر آئی تو دیواریں ٹھنڈی پڑ گئیں۔ تب یہی کیڑے مکوڑے پھر سے غائب ہو گئے ۔ اب ذرا جم کردھوپ لگے تو پھر گرمی اپناسٹارٹ لے ۔گذشتہ روز جب صبح سمے دھوپ نکلی تو کتنا اچھا اچھا لگ رہا تھا۔ یہی وہی دھوپ تھی جوگذشتہ دو ماہ سے بیزار کئے جارہی تھی۔ مگر کل تو چھن چھن کر آئی اوردل کے دروازے کھول دیئے ۔ اس وقت جب ہم کمرے میں بیٹھ کر کھڑکیاں دروازے بند کرنے لگے تھے۔ کیونکہ یخ ہوانے پا¶ں اتنے ٹھنڈے کر دیئے کہ دو دو جرابیں چڑھا لیں ۔سڑکیں خوب دھل گئی ہیں ۔پھر بلڈنگ اور گھروں کے درودیوار پانی کی چمک سے چمچما رہے ہیں۔ لیکن ہمارے شہر کا حال کچھ ایسا ہے کہ گھنٹہ بھر دھوپ میں ۔اتنی سی دیر میں پھر سے وہی گرد وغبار شہر کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا۔ سڑک پر گھوڑوں گدھوں کی لدھ سرِ عام نظارے کی دعوت دیتی ۔کیچڑ الگ تھپی ہوئی۔ سڑکو ںکے ٹوٹ پھوٹ کے عمل نے تین روز کی مسلسل بارش کو اور شہہ دی کہ ان تارکول کے کمزورفرشوں کو اوپر نیچے کر دے ۔گڑھے جہاں جہاں ہیں وہاں وہاںپانی سے بھرے ہیں ۔جو محکموں کی غفلت کا پتا دینے لگے ہیں ۔اب اس شہر میں جی کولگانا ہے ۔نہ لگے ایسا ممکن نہیں ۔ کیونکہ اپنا شہر ہے اپنا راز دار ہے ۔سو جو ناہمواریاں ہیں وہ سہنا ہیں یہیں رہنا ہے۔ کچھ کر نہیں سکتے دیکھ تو سکتے ہیں۔شکر ہے یہ حالت بھی کوئی بری نہیں ۔غالب کے بقول ” گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے “ پھر فراز کے بقول ” جو لکھ نہیں سکتا صفِ مژگاں پہ رقم ہے “۔سو یہ سلسلے ہیں جو آگے تک چلے جاتے ہیں۔پھر جاتے موسم پلٹ بھی آتے ہیں ۔اب تک تو ٹھنڈی ہوا¶ں کا یہ حال ہے دیکھیں آگے موسم کی کیا چال ہے ۔۔پانی تو خوب برسا اور فصلوں کو سیراب کر دیا۔ مگر کچے گھروں کا برا حال ہے ۔” بارش ایک گھنٹہ برسے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے “۔ پھر اگر بارش تین روز برسے تو اندازہ کریں چھت کتنا عرصہ قائم ہی رہ سکتی ہے۔شہریوں نے تو کمروں کے اندر چھت کے سوراخوں تلے لگن رکھ دیئے کہ پانی باقی کے کمرے کی زمین کو گیلا نہ کر دے ۔ہم تو سمجھے ہماری جوانی لوٹ آئی اورہم نے بارش سے پہلے گرم کوٹی اتار دی تھی۔ کیونکہ گرمی محسوس ہورہی تھی ۔ مگر ہفتہ بھر کے موسم نے رک رک کر برسنے والے بادلوں نے جہاں زمین پر سے نقش مٹا دیئے۔ وہاں ہمارا یہ غرور بھی خاک ہوا ۔بہار کے بادل اسی طرح چھناکے سے برستے ہیں ۔کبھی رک رک کر کبھی اٹھ اٹھ کر آسمان کو گھیر لیتے ہیں ۔ پھر وہ دم دمادم ہوتی ہے ۔ یوںکہ کانوں میں انگلیاں ٹھونسنا پڑتی ہیں ۔دھمال سجتی ہے ۔ ایک اطلاع ہوتی ہے کہ گرمی آئی کہ آئی۔جہاں آنے کااعلان ہوتا ہے وہاں شاہی سواری کے کوچ کےلئے بھی تو بگل بجتے ہیں ۔سو بادلو ںکی دھمکار نے گرمی کی فتح یابی کا اعلان کردیا ہے ۔مجھے تو آتش کا وہ شعر ان دنوں خوب یاد آیا” جو ابر گِریہ کُناں ہے تو برق خندہ زناں۔کسی میں خُوہے ہماری کسی میں خُوتیری“۔موسموں کی عالمی تبدیلیاں بھی ذہن میں ہیں۔دوسرما قبل تو اپریل کے درمیان میں مری میں برف باری ہوئی تھی۔ دیکھیں اب کے کیاہو ۔جو ہو تو پھر نہ ہو۔ہو تو دوبارہ بھی ہو ۔