پچاس کروڑ ڈالر قرض (بیل آو¿ٹ پیکج) کی قسط جاری کرنے کی منظوری ’غیرمشروط‘ نہیں اور نہ ہی حسب ِحال قومی مسائل کا حل اور مالیاتی خوشحالی کا باعث بنے گی کیونکہ قرض بہرحال بوجھ (واجب الادا ذمہ داری) ہوتا ہے اور اِس کے اپنے مضمرات ہوتے ہیں تاہم اس سلسلے میں حکومت کا مو¿قف ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور شرائط سے متعلق خدشات بے بنیاد ہیں لیکن اِن شرائط کے تحت معیشت پر اثرات‘ بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ‘ سٹیٹ بینک کی ایکٹ میں ترامیم اور اضافی ٹیکس لاگو ہوں گے جسے حکومتی فیصلہ ساز معاشی اور مالیاتی استحکام کےلئے ضروری تصور کر رہے ہیں بالخصوص ’کورونا وبا‘ کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی غیر یقینی صورتحال میں ’آئی ایم ایف پروگرام (پچاس کروڑ ڈالر قرض)‘ حکومت کےلئے ضروری اور عوام کی نیندیں اُڑانے کےلئے کافی ہے! مذکورہ پچاس کروڑ ڈالر پاکستان کو ”ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی“ کے تحت جاری ہوا ہے اور جولائی دوہزاراُنیس میں جس قرض کے لئے دستخط ہوئے تھے اُس کے تحت پاکستان کو مجموعی طور پر آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر ملنے ہیں جس میں سے 2 قسطوں میں ڈیڑھ ارب ڈالر وصول ہو چکے ہے جبکہ آئی ایم ایف کا پروگرام التوا کا شکار ہو گیا تھا جسے فروری دوہزاربیس میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے بحال کیا گیا اور اب مزید بجلی مہنگی کر دی گئی ہے تو قرض کی ایک چھوٹی سی قسط (پچاس کروڑ ڈالر) جاری کرنے کی منظوری دی گئی ہے جو قومی خزانے کو دیکھتے ہوئے اُونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف لیکن عام آدمی (ہم عوام) کی معاشی حالت اور مہنگائی کو دیکھتے ہوئے ناقابل برداشت بوجھ ثابت ہوگا۔ذہن نشین رہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی پاکستان کےلئے بحالی سے ایک جانب زرمبادلہ کے ذخائر میں پچاس کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوگا تو دوسری جانب اس سے جڑی شرائط پر معیشت اور صنعت و تجارت متاثر ہوگی کیونکہ سب سے نمایاں اضافہ بجلی کی قیمتوں میں ہوگا وفاقی کابینہ پہلے ہی رواں ماہ (مارچ دوہزاراکیس) کے شروع میں اسٹیٹ بینک کے ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دے چکی ہے جو آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہے اور اِسی کے تحت مرکزی بینک کو زیادہ خود مختاری دی جا رہی ہے۔ اِسی طرح وفاقی کابینہ نے نیپرا ایکٹ میں ترامیم کے لئے قانون (آرڈیننس) کی منظوری بھی دے رکھی ہے اور بجلی کے نرخ کم از کم پانچ روپے پینسٹھ پیسے فی یونٹ بڑھانے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے جس کے بعد رواں برس بجلی کی فی یونٹ قیمت بیس روپے سے تجاوز کر جائے گی۔ پاکستان کےلئے یہ بھی ضروری ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے ذریعے ’فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس‘ نامی تنظیم کی اُس مشکوک فہرست (گرے لسٹ) سے باہر نکلے جس کی موجودگی میں پاکستان پر عالمی اقتصادی و تجارتی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں اور اگر ایسا ہوا جس کےلئے بھارت اور کئی دوسرے ملک بھی بھرپور کوشش و خواہش رکھتے ہیں تو یہ کورونا وبا کی وجہ سے متاثرہ خراب معیشت کےلئے زیادہ بڑا دھچکا ثابت ہوگااب پاکستان اُس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہ جہاں پر قرض اس لئے حاصل نہیں کیا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے معاشی ترقی میں مدد ملے بلکہ یہ قرض گزشتہ قرض کو اتارنے کےلئے بھی لینا ضروری ہے اور روپے کی قدر کو مستحکم رکھنا بھی اپنی جگہ ضروری ہے جبکہ اجناس کی قلت میں دالیں‘ تیل‘ چائے اور پیٹرولیم جیسی ضروریات کی درآمدات سے ہاتھ کھینچا نہیں جا سکتا۔ حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو پاکستان کی جانب سے اب قرض لے کر قرض کی واپسی ہو رہی ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہر خاص و عام کو سمجھنا ہے کہ قرض کی دلدل اور ڈھلوان پر دھنستے‘ پھسلتے سنبھلنے کی واحد صورت ’کفایت شعاری‘ اور کم خرچ طرز حکمرانی ہے جس کےلئے حکومت تیار نہیں۔