منڈا بیری یکہ توت۔۔۔۔

شاید اتوار کو صفائی کے عملے کی چھٹی ہوتی ہے مگر نہیں‘ لگتا ہے ہفتہ میں ان کی چار چھٹیاں ہوتی ہے ۔کیونکہ یہ اپنا ساز وسامان لے کر تین چار دنوں کے بعد یہاں آتے ہیں ۔پھر گند گریل کی صفائی ہوتی ہے ۔گند کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ پھر کب آتے ہیں۔ اس کا کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ طوطا فال بھی نکال نہ پائے۔کسی سے پوچھو تو سر جھکا لے کہ کب آئیں گے۔یکہ توت دروازے کے اندر منڈی بیری زیارت کی دیوار کے ساتھ گندگی کا یہ ڈھیر آنکھوں کےلئے ایک آزار ہے ۔عملہ کی کچھ شکایت وغیرہ کرو تو آ جاتے ہیں۔ پہلے تو یہاں بڑا کنٹینررکھا تھا ۔جس میں علاقے کا کوڑا ڈالا جاتا ۔پھر عملہ صفائی اسے اٹھاکر لے جاتا۔ جب سے وہ لوہے کا بڑا ڈمپر غائب ہوا ہے ۔یہاں کے مکینوں نے اپنا گند کوڑا شاپروں میں ڈال کر اس دیوار کے ساتھ رکھنا شروع کر دیا ہے ۔شاپر رکھنا تو شاید ملائم لفظ ہے شاپر گرانا شروع کر دیا۔پھر یہاں ہوتا بھی رش ہے اور بہت رش ۔ گاڑیاں الگ پارک کر دی گئی ہوتی ہیں۔عورتوں مردوں کا یہاں سے گذر ہوتا ہے۔یہاں کی قریب کی گلیوں کے باہر بجلی کے کھمبوں کے نیچے بھی گلی کے مکینوں نے گند کے شاپر پھینکناشروع کر دیئے ہیں ۔مانا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ۔ دو طرفہ عمل ہو تو بات بنتی ہے ۔اگر صفائی کا عملہ غائب ہو تا ہے تو یہاں کے رہائشیوں کو چاہئے کہ ہر جگہ گند پھینکنے سے گریز کریں۔پھر ہمارے ہاں ہمار ے شہر میں اتنا گند کوڑا پایا جاتا ہے کہ توبہ ہی بھلی ہے ۔اندازہ لگائیں کہ دنیاکے دس گندے ترین شہروں میں ہمارے تین شہر ہیں ۔کراچی پشاور اور لاہور ۔ٹنوں کے حساب سے کوڑا ڈالا جاتا ہے ۔ٹنوں کے حساب سے روز اٹھایا جاتا ہے ۔یہ کھیل مدتوں سے جاری ہے ۔ہمارے ایک وزیر صاحب نے دس برس پہلے کہا تھا کہ ہم پشاور کے کوڑے کو شہر سے باہر لے جاکر اس سے بجلی بنائیں گے۔ بجلی تو کیا خاک بنی الٹا جو بجلی تھی وہ بھی گئی ۔اب تو بجلی کو بھی اتنا گراں کیاجارہاہے کہ مرغی کی قیمت کی طرح اس کو بھی پر لگ گئے ہیں ۔ روز سنتے ہیں کہ بجلی مہنگی ہوگئی اور آئندہ بھی جلد مہنگی ہوگی۔یہ علاقہ جس کا ذکر کیا ہے ۔ہم یہیں کھیل کر بڑے ہوئے ہیں ۔بلکہ ہماری پشتیں یہاں آباد تھیںاور اب بھی وہیں رہائش رکھے ہیں۔وہاں جو ہمارے اپنے ہیں وہاں سے شکایت کرتے ہیں ۔” آکے دیکھو تو سہی میرا شہر کیسا ہے ۔ سبزہ و گل کی جگہ ہے درو دیوار پہ خاک “۔اس علاقے میں کبھی لکڑیاں فروخت ہوتی تھیں۔ مگر اب وہاں سے لکڑی کا کام ختم ہے۔ لیکن پھر بھی یہاں سے گذرہو تو اس جگہ کی گندگی نہیں دیکھی جاتی ۔چھوٹا سا شہر ہے اور ہر نفر چاہتا ہے کہ شہر کے اندر رہائش رکھے ۔جب رش ہوگا دکانیں ہوں گی تو ان کے استعمال کی وجہ سے گند گریل تو جمع ہوگا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ گند یونہی پڑا رہتا ہے ۔یہ گنجان آباد علاقہ شہر کے باہر سے آئے کاروبار کرنے والوں کا مرکز ہے ۔ہمہ وقت بھیڑ بھاڑ کی کیفیت ہے ۔جب انسان ہوں گے تو ان کی رہائش کی وجہ سے وہاں کوڑا بھی جمع ہوگا او رزیادہ ہوگا۔اس دیوار کے ساتھ دور تک گند کی ایک پٹی چلی گئی ہے ۔شاپروں کا ایک ڈھیر ہے ۔ہم لوگوں کی عادت ہے کہ جس جگہ کا کوئی والی وارث نہ ہو۔ہم اس جگہ کو بہت پیارکرنے لگتے ہیں ۔کبھی تو اس پر پوراقبضہ کر لیتے ہیں ۔ پھر ہماری یہ بھی تو ادا ہے کہ ہم وہاں اپنے گھروں کا گند پھینکناشروع کردیتے ہیں ۔کسی گلی میں کوئی خالی پلاٹ ہو تو بس وارے نیارے ہو جاتے ہیں ۔وہاں سارے علاقے والے آکر اپنا گند پھینکناشروع کردیتے ہیں ۔ہم بنیادی طور پر اپنا گند دوسروں پراچھالنے والے ہیں ۔ہم گندڈالنے والے ہیں ۔گند اٹھانے والے نہیں ہیں۔توقع کر تے ہیں کہ صفائی والے آکر اٹھا ئیں گے۔ شہر سے باہر کی صورت حال تو اس سے زیادہ بد تر ہے ۔جو علاقے رنگ روڈ کی دوسری طرف ہیں وہ تو عملہ صفائی کی مہربانیوںسے محروم ہیں۔جہاں جہاں کوڑے کے ڈھیر ہیں وہاں وہاں سروے کر کے دیکھیں وہ ڈھیر کسی کی ملکیت نہیں ہوگا۔ یا قبرستان میں ہوگا یا پھر وہ خالی پلاٹ ہوگا جسے مالک نے یونہی چھوڑرکھا ہے ۔مگر وہاں اگر کوڑے کا بڑا ڈھیر بننے جا رہا ہوتو مالک ایک آدھ بار وہاں آئے تو اس بدترین صورتحال کو دیکھ کر اپنے پلاٹ کے گرد چاردیواری چڑھا دے گا۔یوں وہاں کے مکین کسی اور پلاٹ کسی قبرستان کسی خالی جگہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوںگے۔ منڈی بیری کی اس دیوار کے پاس ِکی زمین اس لئے کوڑے سے بھری ہوتی ہے کہ اس جگہ کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔پھر ملحق چوک ناصر خان کے مکینوں کو کوئی پلاٹ بھی تو دستیاب نہیں ۔یہاں تو زمین کا کوئی کونہ خالی نہیں ۔سب پر سب کا قبضہ ہے ۔لیکن صحت کو سامنے رکھیں ۔چونکہ یہاں انسانوں کاایک دریا ہے جو روزبہتا ہے ۔اس لئے روز کا کوڑا روز اٹھا یا جائے تو کیااچھا ہو۔پھر ان نارنجی وردی والوں کے پاس موبائل میں کسی ڈھیرکی صفائی کی تصاویر بھی ہوتی ہیں۔ تاکہ اپنی کارکردگی کو نوٹ کروائیں۔ بوقتِ ضرورت کسی پوچھنے والے کو دکھائیں ۔ حالانکہ اسی دیوار کے پاس کمیٹی کادفتربھی ہے مگر اس کے باوجود اس علاقے کی نگرانی نہیں کی جاتی۔