پاکستان کی آئینی تاریخ میں بہت کم ”قابل فخر‘‘مثالیں فیصلوں کی صورت موجود ہیں کہ جن سے ادارے‘ حکمرانی اور سیاست کے الگ الگ شعبوں کو مضبوطی ملی ہو۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے پارلیمنٹ کے امور میں مداخلت سے گریز بارے فیصلہ قابل ذکر اور انتہائی مختلف و غیرمتوقع ہے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک کی طرف سے کہا گیا کہ یوسف رضا گیلانی کو بارہ مارچ کو بھی سینٹ میں اکثریت حاصل تھی اور اب بھی ہے۔ اس پر فاضل جج مسٹر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پھر تو آپ عدم اعتماد کے ذریعے صادق سنجرانی کو ہٹا کر اپنا امیدوار کامیاب کرالیں۔ مناسب اور آئینی طریقہ کار بھی یہی نظر آتا ہے مگر معروضی حالات میں پی ڈی ایم کے امیدوار کی کامیابی کے امکانات روشن نظر نہیں آتے۔ پہلے تو بارہ مارچ کی صورتحال کو مدنظر رکھ کر تجزیہ کریں تو ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر پی ڈی ایم کے امیدوار کو دس ووٹوں سے شکست ہوئی۔ آج کونسی صورتحال برقرار ہے؟ اپوزیشن سینٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاتی ہے تو اب ان سات ووٹوں کے مسترد ہونے کا تو امکان نہیں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ سات ووٹ کس کے حق میں استعمال ہوں گے۔ ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں تو وہ اپوزیشن کے بجائے حکومتی امیدوار کے حق میں کاسٹ ہوئے تھے البتہ پولنگ ممکنہ طور پر اوپن ہوتی ہے تو پی ڈی ایم کے امیدوار کی فتح یقینی ہے مگر پی ڈی ایم اوپن بیلٹ کی شدت سے مخالفت کرچکی ہے۔ خاصی دلچسپ صورتحال ہے کہ ایک طرف الیکشن کمیشن کی طرف سے بھی اوپن بیلٹ کو ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے۔ معاملہ آجاکے پھر پارلیمنٹ کی کورٹ میں ہی آتا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے اوپن ووٹنگ پر اتفاق کیا گیا ہوتا تو قومی اسمبلی میں پی ڈی ایم کو یوسف رضا گیلانی کی شکست کے صدمے سے تودوچارہونا پڑتا مگر وہ اُس بڑے صدمے سے بچ جاتی جو چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں واضح عددی برتری کے باوجود برداشت کرنا پڑا۔ اب بھی حزب اختلاف اوپن بیلٹ کے حوالے سے آئین میں ترمیم پر حکومت کا ساتھ دے تو اسے زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرمین سینٹ الیکشن کے نتائج کے خلاف یوسف رضا گیلانی کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کرتے ہوئے تیرہ صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ عدالت پارلیمانی کاروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ سماعت کے دوران سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور جاوید اقبال وینس عدالت میں پیش ہوئے۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹ کی بالادستی کی پرجوش حامی رہی ہے۔ اس کی طرف سے ہمیشہ پارلیمنٹ کے معاملات کو پارلیمنٹ کے اندر ہی طے کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ اب کے وہ پارلیمان کا معاملہ عدالت میں لے گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کی نظر میں سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا الیکشن پارلیمانی امور میں نہیں آتا اسی لئے وہ اسلام آباد ہائی کورٹ گئے اور یہ درخواست ناقابل سماعت قرار پانے پر وہ اسے اگلے جوڈیشل فورم پر چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اب ممکنہ طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا ڈویژن بنچ کیس کی سماعت کرے گا۔ اس کے بعد فریقین کے لئے سپریم کورٹ جانے کا راستہ کھلا ہوگا۔ سینٹ میں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینٹ کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو عددی اعتبار سے حکومتی امیدوار صادق سنجرانی پر برتری حاصل تھی۔ سات مذکورہ ووٹ مسترد نہ ہوتے تو یوسف رضا گیلانی یقینی طور پر چیئرمین منتخب ہو جاتے۔ یہ ووٹ اُن کے نام کے اوپر مہر لگنے کے باعث مسترد ہوئے۔ پریذائیڈنگ افسر کی رولنگ کے مطابق مہر امیدوار کے نام کے سامنے اسی نام والے خانے پر لگائی جانی ضروری تھی۔ یہ سات ووٹ اگر یوسف رضا گیلانی کے کھاتے میں شمار ہو جاتے تو وہ اڑتالیس کے مقابلے میں اُنچاس یعنی ایک ووٹ کی اکثریت سے جیت جاتے جبکہ یہ ووٹ مسترد ہونے کے باعث آٹھ ووٹ سے ہار گئے۔ ان آٹھ میں سے ایک ووٹر نے بیک وقت دوامیدواروں کے نام کے سامنے مہر لگادی۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار کو حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کی حمایت حاصل تھی جس اتحاد کے امیدوار کا جیتنا یقینی ہو وہ تکنیکی بنیاد پر ہار جائے تو اس اتحاد کے قائدین کی پریشانی سمجھ میں آتی ہے مگر اداروں کی بالادستی کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دی جاسکتی ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کا تقاضا تو یہی ہے کہ معاملہ پارلیمنٹ میں ہی طے کیا جائے۔ اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے بھی یہی صائب رائے دی گئی ہے اور پاکستان کی آئینی تاریخ میں یہی وہ تاریخی موڑ ہے جہاں صائب عدالتی فیصلوں کو متنازعہ بنانے کی بجائے اُن کے طویل المدتی اثرات پر غور ہونا چاہئے۔ اقتدار‘ جیت ہار اور وقت گزر جائیں گے پاکستان کے ادارے اور سیاست کی مضبوطی بھی پیش نظر رہنی چاہئے۔