دھونس یا انکساری؟

چین ایک طاقتور سلطنت اور علم و تحقیق اور مصنوعات کی پیداوار کا مرکز رہا ہے‘برطانیہ کے ہاتھوں انیسویں صدی میں اس کی شکست سے یہ سلسلہ رک گیا تھا مگر اب وہ پھر بلندیوں کو چھو رہا ہے۔چین کی جانب سے اپنی معاشی طاقت اور عالمی حیثیت میں اضافے کی خواہش دراصل اپنی ماضی کی بحالی کی کوشش ہے لیکن امریکہ اسے امریکی بالادستی کے خلاف کوشش سمجھتا ہے اور ہر جگہ اس کا مقابلہ کرتا ہے جس سے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوتا ہے آج کل امریکہ چین تعلقات مفاہمت اور تعمیری ربط کے بجائے شکوک، خدشات، حسد، مقابلے اور ردعمل کی حرکیات کا شکار ہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 89 فیصد امریکی چین کو مقابل یا دشمن سمجھتے ہیں اور 55 فیصد امریکہ میں چینی طلباء کی تعداد کم دیکھنا چاہتے ہیں۔چینی حکام پر پابندیاں عائد کرنا اب ایک عام سی بات ہے۔ کانگریس ارکان بھی چین کے خلاف اپنے اختلافات بھلا کر یک آواز ہو جاتے ہیں۔امریکی ہیئت مقتدرہ اب چین کو ماضی کے سوویت یونین کی طرح اپنے لئے سب سے بڑے خطرہ سمجھتی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کہتی رہی ہے جہاں ضرورت ہو وہاں چین سے مقابلہ اور جہاں ممکن ہو وہاں تعاون کیا جائے لیکن سوال یہ ہے کیا امریکہ چین کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟یہ اس بات پر منحصر ہے کہ امریکی اتحادی امریکہ کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔ ویتنام، جاپان، جنوبی کوریا اور فلپائن وغیرہ بیجنگ کے علاقائی دعوؤں پر فکرمند ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی چین کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ جنوبی کوریا نے اپنی سرزمین پر امریکہ کا میزائل دفاعی نظام رکھنے پر اتفاق کیا تو چین نے جواب میں جو اقدامات اٹھائے اس کی وجہ سے صرف 2017 ء میں کوریا کا 7.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔امریکہ کا خیال ہے اس کے یورپی یا ایشیائی اتحادی چین بارے اس کا ساتھ دیں گے لیکن ان کے اپنے مفادات، ترجیحات اور تعصبات ہیں۔ یاد رکھیں یورپی یونین کے ساتھ چین نے 2020 ء میں تقریباً 700 بلین ڈالر کی تجارت کی۔ امریکہ کیلئے چین کے خلاف سویت یونین جیسا بلاک بنانا ممکن نظر نہیں آرہا۔ اس کے مفاد کا تقاضا ہے کہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات احترام اور پرامن بقائے باہمی پر مبنی ہوں۔اب فیصلہ امریکہ کو کرنا ہے کہ کیا چین کے خلاف اتحاد بنانے اور اس پر دھونس جمانے کی کوشش کرکے ماحول میں تلخی پیدا کرنا ہے یا چین بارے ایسی پالیسی اپنانی ہے جس میں انکساری ہو، مخالف کے مفادات کا احترام ہو یا انہیں برداشت کیا جاتا ہو۔ کیا امریکہ چین کے خلاف اتحادیوں کو اپنے کیمپ میں لانے کی کوششیں کرتا رہے گا یا اپنی پالیسی میں تھوڑی سی عاجزی لائے گا؟پچھلے دنوں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور سینئر سفارتکار یانگ جیچی کے درمیان الاسکا میں بڑے ناخوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی۔امریکہ نے سنکیانگ اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق، تائیوان میں اس کے جارحانہ اقدامات، امریکہ پر سائبر حملوں اور امریکہ کے اتحادیوں پر اقتصادی دباؤ پر بات کی جبکہ چینی رہنما نے بلنکن، سلیون اور دیگر امریکی عہدیداروں کے ’حقارت آمیز‘ رویئے پر تنقید کی، امریکہ پر دوسرے ممالک کو اپنی مالیاتی برتری اور فوجی قوت سے دبانے کا الزام لگایا اور کہا امریکہ میں انسانی حقوق کی صورتحال ابتر ہے اور سیاہ فام امریکیوں کو ’ذبح‘ کیا جا رہا ہے۔ چین کے مطابق وہ تعمیری تعلقات کے لئے تیار ہے مگر اپنے مفادات کا حصول ہر قیمت پر یقینی بنائے گا۔ چین عالمی معیشت کا مرکزی کردار ہے‘امریکہ کے کل قرضے اس وقت 26 کھرب ڈالرز ہیں جن میں 6.13 کھرب ڈالرز کی ٹریڑری بانڈز کی غیرملکی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں۔ ان میں چین کے پاس 1.1 کھرب ڈالرز کے بانڈز ہیں۔2007 ء میں ہیلری کلنٹن نے چین کو امریکہ کا ”بینکر“کہا تھا۔امریکہ کی جانب سے صرف مغربی جمہوریت ہی کو خود کو دنیا بھر میں آزادی کا نمونہ اور پھیلانے کا ذمہ دار سمجھنا درست نہیں۔ ہر ملک کو اپنے حالات کے مطابق اپنا طرز زندگی اور طرز حکومت منتخب کرنے کا حق ملنا چاہئے‘امریکہ چین تعلقات کا بہترین ماڈل وہ ہے جو احترام، مفاہمت، تعاون پر مبنی ہو اور اس حقیقت کو قبول کرتا ہو کہ چین امریکہ کا عالمی مقابل اور مخالف بے شک ہے مگر اسے امریکہ کی جانب سے خطرہ یا دشمن سمجھنا بالکل غلط بات ہے۔امریکہ کو کشیدگی سے بچنے کیلئے چین اور جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار اور مواصلات کے پروٹوکول کا جائزہ لینا چاہئے اور بحیرہ جنوبی چین میں سمندری جھڑپوں کو روکنے کے لئے کثیر الجہتی اعتماد سازی کے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔چین اور امریکہ کے درمیان بہتر تعلقات رہے ہیں لیکن ان میں اونچ نیچ آتی رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ امریکہ کی رعونت اور دھونس جمانے کی پالیسی ہے۔1784 ء میں امریکہ اور چین کے درمیان تجارت شروع ہوئی تھی۔ 1954 ء میں تائیوان کے معاملے پر امریکہ نے چین پر جوہری حملہ کرنے کی دھمکی دی جس پر چین سمجھوتے پر راضی ہوگیا لیکن 1964 ء میں چین نے جوہری تجربہ کرلیا۔پھر چین روس کے مابین کشیدگی بڑھی تو چین امریکہ تعلقات بہتر ہوگئے اور پاکستان کی کوششوں سے پہلے ہنری کسنجر اور پھر 1972 ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے چین کا آٹھ روزہ دورہ کیا۔1980 ء میں چین میں اقتصادی اصلاحات ہوئیں اور امریکہ نے معاشی مفادات کے لئے تائیوان کے مسئلے پر خاموشی اختیار کرلی لیکن 1989 ء میں تیانمن سکوائر واقعے کے بعد امریکہ نے پھر چین پر پابندیاں لگا دیں۔ سن دو ہزار کی دہائی میں چین امریکہ تعلقات بہتر ہوئے تو چین دنیا کے دو تہائی ممالک کا سب سے بڑا اور امریکہ کا دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر بن گیا۔ اس وقت دنیا کی یہ دوسری بڑی معیشت چند سال میں سب سے بڑی معیشت بن جائے گی تاہم اس کا دارومدار اس پر ہے کہ اس کی آبادی میں آئندہ برسوں میں جوانوں کی تعداد بڑھ جائے اور وہ خود کو تنازعات اور جنگوں سے بچا سکے۔