تیاری رکھیں اور ذہنی طور پر آمادگی رکھیں کہ مہنگائی کا ایک ایسا ”نیا دور“ آنے والا ہے‘ جو اِس سے قبل نہیں دیکھا گیا یا مہنگائی کو آخری حد تک آزمانے جیسے تجربے سے قوم پہلے کبھی نہیں گزری۔ وجہ یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے حاصل ہونے والے قرضہ جات (موجودہ پروگرام کی بحالی) ہوئی ہے اور اِس بحالی کےلئے منظورکردہ شرائط میں سب سے بڑی پریشانی بجلی کے نرخوں میں بے تحاشا اضافے پر پاکستان کے فیصلہ سازوںکا ’رضامند‘ ہونا ہے جس سے یقینا مہنگائی کی ایک نئی لہر جنم لے گی جبکہ عام آدمی کے علاو¿ہ ’درآمدی شعبہ‘ بھی متاثر ہو گا۔ ذہن نشین رہے کہ حال ہی میں وفاقی کابینہ نے بجلی کے فی یونٹ پر 5.65 روپے بڑھانے کی منظوری دی‘ جس سے محدود آمدنی والے خاندانوں کے بجلی بل دگنے ہو جائیں گے جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بجلی کے نرخوں میں اضافہ اگلے تین برس تک بڑھتا رہے گا۔ دوسری طرف حکومت جو تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو ہمیشہ سے رعایت (سبسڈی) دیتی رہی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی اور چھوٹے بڑے گھریلو یا صنعتی صارفین کو حاصل ہر قسم کی رعایت (سبسڈی) ختم ہو جائے گی۔ بنیادی طور پر حکومت نے رواں مالی سال کےلئے افراط زر کا ہدف ’سات سے نو فیصد‘ کے درمیان رکھا تھا تاہم اب تک اوسطاً افراط زر کی شرح ’آٹھ سے نو فیصد‘ کے ہے اور آنے والے دنوں میں یہ10فیصد تک پہنچ سکتی ہے اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے (یعنی مہنگائی پر قابو پانے کےلئے) سٹیٹ بینک کو شرح سود میں اضافہ کرنا پڑے گا جبکہ شرح سود اس وقت سات فیصد ہے جو کورونا وائرس کی وبا کے پھوٹنے سے پہلے 13.25فیصد تھی تاہم دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں شرح سود ابھی بھی بلند سطح پر موجود ہے اور شرح سود میں اضافہ کسی بھی ملک کی معاشی پیداوار کےلئے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان ایک ایسی دلدل میں پھنس گیا ہے کہ اِس کے پاس سوائے ’آئی ایم ایف‘ کی شرائط پر عمل درآمد کرنے کوئی دوسری آسان صورت بظاہر دکھائی نہیں دے رہی۔مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر 17 سے 20 ہزار روپے آمدنی والے افراد پر ہو گا تاہم اگر حکومت احساس پروگرام کے تحت بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو کم آمدنی والے افراد کےلئے ایک دو ہزار روپے ادا کرے تو اِس سے مہنگائی کا منفی اثر زائل کیا جا سکتا ہے۔ پچاس کروڑ ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری دینے کے بعد آئی ایم ایف نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ پاکستانی حکام نے کلیدی شعبوں میں اصلاحات کا عمل جاری رکھا جن میں سٹیٹ بینک کی خود مختاری‘ پاور سیکٹر میں اصلاحات‘ کارپوریٹ ٹیکسیز وغیرہ شامل ہیں۔ پچاس کروڑ ڈالر کی مذکورہ قسط پاکستان کو ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی (ای ایف ایف) کے تحت جاری کرنے کی منظوری دی گئی ہے جس پر آئی ایم ایف اور پاکستان نے جولائی دوہزاراُنیس میں دستخط کئے تھے۔ اس کے تحت پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے چھ ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری دی گئی تھی تاکہ ملک کی بیرونی ادائیگیوں کے ساتھ ساتھ پائیدار اقتصادی ترقی کو مدد فراہم کی جا سکے۔ پروگرام کے تحت اب تک پاکستان کو دو قسطوں میں ڈیڑھ ارب ڈالر وصول ہو چکے ہیں اور اب پچاس کروڑ ڈالر کے بعد اس قرضے میں سے دو ارب ڈالر وصول ہو جائیں گے۔ پاکستان میں مہنگائی کا عمومی منظر نامہ یہ ہے کہ اس کی شرح بلندی کی طرف گامزن ہے۔ مرکزی بینک نے حال ہی میں مانیٹری پالیسی بیان میں کہا کہ مہنگائی کے حالیہ اعدادوشمار متغیر رہے ہیں اور جنوری میں دو سال سے زیادہ عرصے میں عمومی مہنگائی پست ترین رہی ہے جس کے بعد فروری میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ سٹیٹ بینک کے تخمینوں کے مطابق بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافہ اور چینی و گندم کی قیمتیں‘ جنوری اور فروری کے اعدادوشمار کے مابین مہنگائی میں تین فیصد درجے اضافے کے تقریباً ڈیڑھ فیصد درجے کی ذمہ دار ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ آئندہ مہینوں کے دوران عمومی مہنگائی کے اعدادوشمار میں ظاہر ہوتا رہے گا جس سے مالی سال دوہزاراکیس میں اوسط مہنگائی قبل ازیں اعلان کردہ سات سے نو فیصد کی حدود کی بالائی حد کے قریب رہے گی جبکہ مالی سال کے آخری چار مہینوں میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کا امکان ہے اور یہ دس فیصد تک جا سکتی ہے۔حکومت نے ملک میں بجلی کے نرخوں میں اس سال کے شروع میں سولہ فیصد اضافہ کیا تھا جبکہ رواں مالی سال کی آخری سہ ماہی تک چھتیس فیصد اضافے پر رضامندی ظاہر کی‘ جو آئی ایم ایف سے پچاس کروڑ ڈالر لینے کےلئے شرائط کا حصہ تھی اور یوں حکومت کو ایک بڑی کامیابی (قرض کی قسط صورت) مل گئی ہے لیکن عام آدمی کےلئے تاریخ کے مہنگے ترین رمضان المبارک اور آنے والے دور سے متعلق حکمت عملی کیا ہوگی بالخصوص ایک ایسے وبائی دور میں جبکہ کورونا نے معاشی و اقتصادی سرگرمیوں کو سست رو کر رکھا ہے۔