نقالی کرنا تو کوئی ہم سے سیکھے۔ وہ کون سی چیز ہے جس کی ہم نے نقل نہیں بنا رکھی۔قومی لیول کے بڑے امتحانوں میں بیٹھے ہوئے امیدواروں کی طرف ایک نگاہ ڈالیں۔ سبز رنگ کے خیمے کھینچ دیئے گئے ہیں۔کراکری والے سے سرخ کرسیاں لا کر قریب قریب بچھا دی گئی ہیں۔ہر سیٹ پر رول نمبر چسپاں ہے ۔جیسے ایک بازار کہ دکانیں سجی ہوں اس اوپن ایئر امتحان ہال میں جو مرضی میں آیاکیا۔ خوب نقل ہوئی اور خوب ہوئی ۔ امتحان کےلئے آئے امیدوار اپنی اپنی کرسیاں ایک ساتھ کئے سر جوڑ کر پرچے خوب بھرتے رہے ۔ جس نے جہاںسے دیکھا جیسے دیکھا ویسے ویسے لکھ دیا۔ ایسے بڑے اداروں کے کرتا دھرتا بڑی فیسیں وصول کر کے امتحان لیتے ہیں۔پھر بعض معتبر ادارے تو اسی کاغذ پین کے امتحان کو کافی سمجھ کر بغیر انٹرویو اگلے کو آسامی بھی گلے کا ہار پہنا دیتے ہیں۔پھر وہ ڈھول بجاتاہوا منادی کر تا ہے کہ میں نے امتحان پاس کر لیا۔ ویسے ہمارے ہاں کوئی بھی امتحان ہو اس ناسور سے خالی نہیں ۔کوئی انٹر ویو کیوں نہ ہو اپنوں کی پاسداری سے خالی نہیں۔ پھر یہ سنی سنائی تو نہیں آنکھوں دیکھاہے ۔اپنے اوپر بیتی ہے ۔نقل کامطلب اپنے ساتھ لائی ہوئی کتاب سے دیکھنا مراد نہیں بھی ہو سکتا ۔ساتھ والے کی جوابی شیٹ کو دیکھنا بھی تو نقل ہے اور کیا ہے ۔چارٹرڈ اکا¶ نٹنٹ امتحان میں ہماری ڈیوٹی ایک ہال میں لگی تھی۔ ایک دن کے پیسے تو اچھے ملتے ہیں ۔مگر جو دیکھا اس پر افسوس کے سوا کچھ اور نہیں کیا جاسکتا۔اتنے گراں قدر امتحانوں میں جب یہ حال ہو تو کیا کہا جاسکتا ہے۔اسی موضوع پر ہم نے ایک بار پہلے بھی لکھا تھا۔ایک ادارے کے سربراہ نے ہم سے رابطہ کر کے ہمیں اپنی یونیورسٹی کے ایک امتحان میں نگران کے طور پر بلایا۔ اچھی عزت خاطر کی معاوضہ بھی اچھا تھا ۔ہم پہنچ گئے۔کچھ دنوں وہاں امتحان ہال میں سٹوڈنٹس کی قطاروں کی راہداریوں میں گھوم گھوم کر گھٹنے گوڈوں سے چٹاخ پٹاخ کی آوازیں آنے لگیں۔ مگر ہم ڈٹے رہے ۔کیونکہ عزت سے بلایاتھا ۔سو انکار نہ تھا۔ امتحان کے ایام ختم ہوئے تو انھوں نے اپنے کمرے میں چائے پلائی ۔ ۔انھوں نے راز افشاں کیاکہ ہم نے آپ کو اس لئے ڈیوٹی پربلایا کہ آپ کو اپنے ادارے کی کارکردگی دکھاناتھی۔ آپ کے کالم میں نقل کے بارے میں لکھا تھا ۔آپ نے ہر ادارے کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا تھا۔کیا آپ نے ہمارے ہاں نقل کا کوئی واقعہ دیکھا ۔ہم نے چٹ انکار کیا۔ واقعی وہاں کسی نے کوئی کتاب نہیںکھولی کوئی پر پُرزہ نہیں نکالا۔مگر گھر آکر جب یاداشت ری کال کی تو یادآیا کہ ایک دوسرے سے دیکھنے کو ہم کہاں روک سکتے ہیں ۔اگرچہ کہ ہال میں داخل ہوتے وقت کسی ایک کے پاس کوئی کتاب نہ ہو ۔ کسی کی جامہ تلاشی لو تو کچھ نہ نکلے۔مگر ” دیکھ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل حو ہوا ۔تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں “۔اس فن کے فنکار تو اپنی مہارت الگ رکھتے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی کشتی کو اس منجدھار سے نکال ہی لیتے ہیں۔ پھر” کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیں “ ۔یہ بات بھی تسلیم کہ قابلیت رکھنے والے آگے پیچھے نہیں دیکھتے اور سر نہیوڑائے اپنالگے رہتے ہیں لکھتے جاتے ہیں اور آگے جاتے جاتے ہیں۔۔پھر آج کل تو ویڈیو کا زمانہ ہے کیمروں کی خفیہ آنکھ سب کچھ رہی ہوتی ہے ۔پھر خود بھی دیکھتی ہے اور دنیا کو بھی دکھلاتی ہے۔کسی کواگر انفارم نہ کریں تو کسی کو پتا ہی نہیں چلتاکہ مجھے کیمرے کی آنکھ نہ صرف دیکھ رہی ہے بلکہ گھور رہی ہے ۔ نقل کرنے کا رجحان ایک ایسا ناسور ہے کہ جس سے ہم نے اب تک پیچھا نہیں چھڑایا۔پھر مستقبل میں نظر نہیں آرہا کہ ہم نقل سے باز آ جائیں گے۔ جس طرح کے حربے آزما لیں نقل کرنے کا چسکا نہیں جانے والا۔یہ تو ہر ایک کو الگ الگ ہوا دار ڈبے میں بٹھا دیں اس پر چار اطراف کیمرے لگا دیں ان کی جامہ تلاشی لے کر ہال کے اندر چھوڑیں ۔ مین گیٹ پر سکینر لگا دیں ۔ان کاسارا وجود ٹی وی کی سکرین میں نظر آئے ۔ تاکہ معلوم ہو جائے کہ اس کے پاس کتاب کاپی اور پرزہ جات ہیں ۔مگر اس کی تسلی ہوجانے کے بعد بھی سو فیصد تسلی ممکن نہیں ۔ہمارے ہاں کے فنکار بہت ماہر ہیں ۔