بچوں پر تشدد نہ کرنے کا بل تو منظو ہوچکا ہے۔ اب تو سکولوں میں کیا دکانوں میں بھی کسی کام کاج والے مزدو ر بچے پر ہاتھ کیا انگلی بھی نہیں اٹھائی جا سکتی ۔پھر نہ ہی کسی بچے کو کلاس میں زدکوب کیا جا سکتا ہے ۔ بلکہ اس کو گھور کر بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ بات الگ ہے کہ کمرہ جماعت میں بچوں کو کنٹرول کیسے کیا جائے گا۔ بل پاس ہو ا تو کیا اس پر عمل کون کرے گا ۔پھر کوئی ٹیچر مار دھاڑ کرتا ہوا پائے جائے تو پہلے اس پر پرنسپل صاحب پردہ ڈالیں گے ۔ تو پھر سوال ہے کہ ایکشن کون لے گا ۔ایکشن تو اس وقت لیا جائے گا جب استاد کی شکایت اوپر پہنچائی جائے۔ پھر ہمارے ہاں تو یہ عادات نہیں ۔ ہم تو کچھ جدا سی عادات و اطوار کے مالک ہیں۔ ہماری قوم کی تو الگ سی شان ہے ۔جس پر ہرترقی یافتہ قوم حیران ہے ۔سو بل تو پاس ہو جائیں ہزار قانون تو بن جائیں ۔اگر ہم نے بچوں کو مارنا نہیں ۔تو اس کا بدلہ ہم دوسرے طریقے سے اتار سکتے ہیں۔ایک والد نے خرچہ زیادہ ہونے کی وجہ سے بچے کو پرائیویٹ سکول سے اٹھا دیا۔ اس کو ایک مشہور سرکاری سکول میں ڈال دیا۔ مگر وہاں بچوں کو کلاس میں سختی سے جڑک دیتے تھے۔ پھر دوبارہ اس والد نے جیسے تیسے کر کے بچے کو وہاں نکال کر اسی نجی سکول میں بٹھا دیا۔ اگر یہ بل پاس ہوا ۔ تو کیا ہوا۔ وہی تشدد ہے وہی آنکھیں نکال کر غصے سے دیکھنا ہے ۔شفقت سے تو ہم لوگ خود محروم رہ کر سکولوں میں پڑھے ہیں۔ اس لئے جو سیکھا ہے وہی ہم نے دوسرے بچوں پر بھی اپلائی کرنا ہے ۔یہ بری عادات تو پہلے جاتی نہیں ۔ پھر اگر کوئی ایک عادت جاتے جاتے جائے تو عجب نہیں کہ واپس آجائے۔ یہ زلفوں کے پیچ و خم تو نہیں ہیں کہ کنگھی سے سنور جائیں ۔یہ تو دنیا ہے۔ پھرہمارا اپنا معاشرہ ہے۔ جہاں ہم نے ماحول کو خراب کر رکھا ہے ۔ اس طرح کہ جیسے برباد کر دیا ہے ۔اب یہ نیا کنارے لگے تولگے۔ یہ کاغذ کی کشتیاںمشکل سے کنارے پر پہنچ پاتی ہیں ۔ ہم لوگ کاغذی جہاز ہوا میں چھوڑنے میں بہت ماہر ہیں ۔ جو اک ذرا اڑان بھر کرزمین پر گر جاتا ہے ۔ ہمیں تو ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ۔مگر ہمارے ٹھوس تو کچھ نہیں ہاں سب مایہ ہے ۔مایا جال ہے ۔سب ناپائیدار ہے ۔اسی طرح تھانوں کے کلچر کو تبدیل کرنے کی بات ہوئی قانون پاس ہوا مگر ڈھاک کے تین پات وہی چال بے ڈھنگی ۔ رائٹ تو انفارمیشن کا قانون مگر یہ حق عوام کو جیسا کہ حق ہے نہیں دیا گیا۔ پولیس وین کھڑی ہو اور کسی کے پیچھے آئے ہوں ۔پوچھیں خیر تو ہے ۔ ا س پر پولیس مین جواب دیتا ہے خیر ہے جی کچھ نہیں ۔عام سڑک پر دوسرے شہری کو پوچھنے کا حق نہیں تو اس کو یہ اعتماد کون دلائے گا کہ کسی کیس کے بارے میں جا کر قریبی پولیس چوکی سے معلومات حاصل کرے۔ وہ نفسیاتی طور پروہیں دبک کر رہ جاتا ہے۔ اس کلچر کوبھی تو تبدیل کریں ۔قانون تو ہزاروں بنائے گئے ۔ پچھلے آٹھ سالوں میں جتنے قانون ہمارے ہاں بنے ہیں وہ بھی ایک طرح کا ورلڈ ریکارڈ ہے ۔ مگر اس پر عمل درآمد کا نہ ہونا اپنی جگہ عالمی ریکارڈ ہے ۔باہر کے معاشروں میں قانون نہیں بنتے ۔ ان کے رسوم رواج عادات و اطوار ہی قانون ہیں۔ جس پر وہ لوگ آنکھیں موندے ہوئے عمل پیرا ہوتے ہیں۔بلکہ میں کہوں بعض ملکوں میں تو آئین ہی سرے سے موجود نہیں ۔ ان کی روزمرہ کی زندگی ان کا آئین ہے جس پر انھوں نے کسی کے آکھے میں آکر عمل نہیں کرنا۔بلکہ ازخود اس پر صدقِ دل سے عمل کرتے ہیں۔