صدر بائیڈن کو اپنے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ سے جو سیاسی ورثہ منتقل ہوا اس میں فروری 2020 کا امریکہ طالبان امن معاہدہ بھی ہے جس کے تحت امریکہ کو یکم مئی 2021 تک افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنی ہیں۔صدر بائیڈن کے پاس دو ناخوشگوار متبادل راستے ہیں۔ ایک، یکم مئی تک معاہدے کے مطابق امریکی فوج نکال لیں اور افغانستان میں حکومت پر طالبان کے قبضے یا خانہ جنگی کا خطرہ مول لیں۔ دوم، طالبان کی رضامندی یا اس کے بغیر فوج باقی رکھیں اور پھر اگر طالبان کے حملوں میں کثیر تعداد میں امریکی فوجیں مریں تو اس کا سیاسی نقصان اٹھائیں۔ بظاہر امریکہ کا افغانستان میں زیادہ عرصے تک رہنے کا ارادہ نہیں۔ مگر وہ افغانستان کو محفوظ اور منظم انداز میں چھوڑنا چاہتا ہے۔ اس کی اولین ترجیح یہ ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو تاکہ وہ اطمینان سے اپنی فوجوں کو باہر نکالے۔ چنانچہ وہ جامع بین الافغان معاہدے، جنگ بندی اور عبوری حکومت کے قیام کےلئے افغان حکومت، طالبان اور علاقائی و بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ کام کررہا ہے۔ اور اگر یکم مئی تک کوءمعاہدہ نہ ہو سکا تو پھر صدر بائیڈن نے اشارہ دیا ہے کہ یکم مئی کے بعد افغانستان میں کچھ امریکی فوجیں رہ جائیں گی۔ صدر بائیڈن نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کب تک کتنی امریکی فوج اور کن مقاصد کےلئے یہاں رکھنا چاہیں گے تاہم انہوں نے کہا امریکی اور اتحادی افواج کا جلد انخلاءنقل و حمل کی مشکلات کے باعث مشکل ہے لیکن ان کے بقول انخلاءمیں تھوڑی ہی تاخیر ہوگی۔ البتہ چند سینیئر امریکی فوجی اور انٹلی جنس اہلکار کہتے ہیں امریکہ کو انخلاءکی کوئی معین تاریخ دینے سے اجتناب کرنا چاہیے کیوں کہ اس طرح مخالفین اس وقت کےلئے منصوبہ بندی کرلیں گے۔ ان کے بقول امریکہ کو کم سے کم سے اتنی فوج یہاں ضرور رکھنی چاہئے جو معاہدے پر عمل درآمد یقینی بناسکتی ہو۔مسئلہ یہ ہے کہ ایسا کرنا امریکہ کے ساتھ طالبان کے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی اور اس سے امریکہ کی اخلاقی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔ ادھر طالبان نے کہا ہے وہ معاہدے پر قائم ہیں اور چاہتے ہیں امریکا بھی دوحہ معاہدے پر عمل کرے۔ انہوں نے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا ہے بصورت دیگر سخت "رد عمل" کی دھمکی ہے۔قیام کے ممکنہ فیصلے اور اس کے بعد طالبان کے حملوں میں امریکی فوج کے بڑے جانی نقصان سے بچنے کےلئے امریکہ کوشش کررہا ہے کہ طالبان اور دیگر افغان گروہوں کے ساتھ فوجیوں کے انخلاءاور انسداد دہشت گردی مقاصد کےلئے غیر ملکی فوج کی مناسب تعداد یہاں رکھنے پر سمجھوتہ ہوجائے۔ افعانستان میں اس وقت امریکہ کے 3500 افواج کے علاوہ نیٹو کے تقریباً آٹھ ہزار افواج موجود ہیں۔صدر بائیڈن نے اپنی صدارتی مہم میں ہمیشہ کی جنگوں سے امریکہ کو نجات دلانے کی بات کی تھی۔ تاہم افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے لئے اندرونی مطالبہ شاید اتنا مضبوط نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔ ویت نام سے امریکی فوج واپس بلانے کے لئے جیسے مظاہرے ہوئے، افغانستان سے انخلاءکےلئے نہیں ہوئے۔ عراق سے فوج واپس بلانے کےلئے نہ صرف بڑے مظاہرے ہوئے بلکہ کانگریس کے دونوں ایوانوں نے امریکی فوج واپس بلانے کا تقاضا کیا۔ افغانستان پر ایسا نہیں۔ دسمبر 2020 میں کانگریس نے دفاعی خرچ کا بل منظور کیا جس کے تحت صدر ٹرمپ کا امریکی فوج کا انخلاءروکا گیا۔ امریکہ میں خارجہ پالیسی ترجیحات بارے ایک نئے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ دہشت گرد حملوں سے بچاو¿ امریکیوں کی سب سے بڑی ترجیح ہے جبکہ بیرون ملک مقیم امریکی فوج واپس بلانا ان کی سترویں ترجیح ہے۔اگرچہ امریکی تاریخ میں بعض اوقات بیرون ملک جنگ برقرار رکھنے کےلئے بہت بڑا سیاسی نقصان اٹھانا پڑا جیسے ویتنام میں لنڈن بی جانسن یا عراق میں جارج ڈبلیو بش کے ساتھ ہوا مگر افغانستان میں فوج رکھنے اور جنگ برقرار رکھنے سے صدارتی یا کانگریس کے انتخابات میں نقصان ملنے کازیادہ امکان دکھائی نہیں دیتا۔امریکہ افغانستان چھوڑنا چاہتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہ افغانستان سے کوئی مسلح گروہ دوبارہ مغرب پر کوئی حملہ نہ کرسکے۔ تو کیا افغان فوج اپنے بل بوتے پر اپنی حکومت بچا سکے گی؟ اس کے اشارے حوصلہ افزاءنہیں۔ فوجیوں کے انخلاء پر ایک خفیہ امریکی انٹلی جنس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر طالبان اور افغان حکومت کے مابین مستقبل کے نظام حکومت پر کسی معاہدے سے پہلے امریکی فوجیں نکل گئیں تو افغانستان دو تین سال کے اندر طالبان کے قبضے میں چلا جائے گا۔افغانستان پر حملہ آور ہوکر امریکہ نے غلطی کی تھی۔ نہ طالبان امریکہ پر نو گیارہ کے حملوں میں ملوث تھے، نہ انہوں نے القاعدہ کو یہاں بلایا تھا اور نہ ان کا کسی بین الاقوامی دہشت گرد گروہ سے تعلق تھا۔ طالبان القاعدہ وغیرہ کو پسند نہیں کرتے لیکن انہیں اپنے لیے خطرہ یا دشمن بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ اپنے چوبیس سو فوجیوں کی جانیں، ایک ہزار ارب ڈالرز اور لاکھوں افغان جانیں افغانستان میں ضائع کرنے کے بعد اب وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ تاہم امریکہ اگر اس سے یہ سبق سیکھ لے کہ آئندہ وہ دوسرے ممالک کی خودمختاری اور ان کے عوام کے حقِ حکومت سازی کا احترام کرے گا اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر باہر منتخب حکومتیں ہٹانے کا عمل چھوڑ دے گا تو دیر اید درست آید۔