خیبر پختونخوا میں واٹر مینجمنٹ یا اصلا ح آب پا شی کا محکمہ زر عی نظام کا حصہ ہے اس کے تحت فصلوں کو بھی بہتر پا نی مہیا کیا جا تا ہے فارم فارسٹ یا گھر یلو جنگل با نی کو بھی فروغ دیا جا تا ہے میدا نی اور پہا ڑی علا قوں میں اس محکمے کے ما ہرین ایسی زمینوں کو سیراب کر تے ہیں جن کو بنجر خیال کیا جا تا تھا یہ محکمہ روایتی ٹھیکہ داروں کو لیکر کام نہیں کرتا بلکہ کسا نوں کی انجمن کے ذریعے کام کر تا ہے کسی گاﺅں میں کسا نوں کی انجمن اس بات کی نشا ن دہی کرتی ہے کہ یہاں زمین ہے ، پا نی بھی ہے فصل ہو سکتی ہے جنگل با نی بھی ہو سکتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ پا نی کو زمین تک پہنچا یا جائے یا کسی گاﺅں میں زمین زیا دہ ہے فصل اور جنگلات کا رقبہ کا فی بڑا ہے مگر پا نی کم ہے آخری کنارے پر جو سبزہ ہے اس کو پا نی نہیں ملتا اگر نہروں کو پختہ کیا جا ئے تو رس رس کر ضا ئع ہو نے والا پا نی سبزے تک پہنچ جا ئے گا واٹر مینجمنٹ کے ما ہرین مو قع پر جا کر دیکھتے ہیں تخمینہ تیار کر تے ہیں کسا نوں کی انجمن کے ساتھ ایک معا ہدہ کر تے ہیں معا ہدے کے تحت تعمیرا تی سا ما ن محکمے کے وسائل سے مہیا ہوتے ہیں مقا می اشیا ءپتھر ، بجری اور ریت وغیرہ کسا نوں کی انجمن مہیا کر تی ہے مزدوری پر کوئی پیسہ نہیں لگتا انجمن کے ممبروں کی طرف سے رضا کا را س منصو بے پر کا م کرتے ہیں یہ مو جود ہ حا لات کے مطا بق بہترین انتظام ہے یہاں تک لکھا تو ساتھ بیٹھے شاہ صاحب نے مداخلت کی اور نا قدانہ ، نا صحا نہ انداز میں بولے باتیں سب سچ ہیں مگر زما نہ حال نہیں یہ ما ضی کا واقعہ ہے اس لئے ” تھا ،تھے ،تھی “ آنا چاہئے سات سال ہو گئے واٹر منیجمنٹ کا محکمہ بند ہو گیا ہے میں نے کہا تمہاری اطلا ع درست نہیں دفتر مو جو د ہے بورڈ لگا ہوا ہے قابل اور تجربہ کار لوگوں پر مشتمل عملہ ہر ضلع میں بیٹھا ہوا ہے تم آنکھیں کھو لو ما سک لگا کر اور ہا تھ دھو کر کورونا کے پیچھے لگے رہنے کی بجائے پشاور سے با ہر جا ﺅ کر ک اور لکی مروت تک سیر کر کے آجا ﺅ ، ما نسہرہ اور بٹگرام کا چکر لگاﺅ ، دیر اور چترال کی سیر کرو تمہیں پتہ لگے گا کہ واٹر منیجمنٹ ما ضی کا قصہ نہیں زما نہ حال کا معا ملہ ہے شاہ صاحب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا میں نے براول اور چترال کا چپہ چپہ چھا ن مارا ہے ، ما نسہر ہ اور کر ک بھی ہو آیا ہوں یہ ما ضی کا قصہ ہے ہر جگہ بورڈ لگا ہوا ہے آفیسر بیٹھے ہوئے ہیں میرا خیال تھا کہ سوارب درخت لگا نے کے منصو بے سے ان کو وافر حصہ ملا ہو گا زرعی خو د کفا لت کے انقلا ب سے ان کا دامن لبا لب بھرا ہو گا مگر ایسا نہیں ہے ۔ مجھے عکسی مفتی کی کتاب ” کا غذ کا گھوڑا “ یا د آگئی اس کتاب میں ایک بیوروکریٹ نے اپنے 35سالہ تجربات کا نچوڑ بیان کر تے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی اچھا حکمران آتا ہے تو نئے ادارے بنا تا ہے اس ادارے کے مقا صد بڑے نیک ہو تے ہیں اس کے اہداف نما یاں اور واضح ہو تے ہیں بڑے جو ش و خروش کیساتھ کام شروع ہو تا ہے نہا یت کامیا بی سے کا م آگے بڑھتا ہے پھر ایک دن یہ ادارہ غیر فعال ہو جا تا ہے حکمرانوں کی تر جیحات بھی بدل جا تی ہیں آفیسروں کا جو ش و خروش بھی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے عوامی آواز دب جاتی ہے چنا نچہ فائلوں پر گرد بیٹھ جا تی ہے دفتروں میں تنخوا ہ ، پنشن اور بنو یلنٹ فنڈ کے سوا کوئی مسئلہ پڑھنے اور سننے کو نہیں ملتا واٹر مینجمنٹ کا ایسا ہی حال ہوا ہے وزیر اعظم عمران خان کے وژن کو آگے بڑھا نے میں یہ محکمہ سب سے زیا دہ مدد گار ثا بت ہو سکتا تھا حق تویہ تھا کہ ایک ارب پودے لگا نے کی سکیم ہو یا سوارب درخت لگا نے کی سکیم ہو دونوں سکیموں میں فنڈ کا بڑا حصہ واٹر مینجمنٹ کو ملنا چا ہئے تھا ‘ وسائل کی تقسیم ضلعی انتظا میہ اور فیلڈ آفیسروں کی مشاورت سے ہو نی چاہئے تھی ایسا ہوتا تو کوئی بھی ضلع صو با ئی خزا نے سے آنے والے فنڈ کی تقسیم کے عمل میں محروم نہ ہو تا ۔واٹر مینجمنٹ یا اصلا ح آب پا شی کا محکمہ وزیر اعظم عمران خا ن کے وژن گرین پا کستان کا علم بردار ہے اس کو دوبارہ فعال ہو نا چا ہئے ۔