اس نے گھر کے لان میں آرام کرسی پر بیٹھے آنکھیں موند لی تھیں۔ اتنے میں پاس کیاریو ںمیں سے مالی نے کچھ پھول چن کر یکجا کئے اور صاحب کو پیش کئے۔ صاحب نے پھول ہاتھ میں لئے سونگھا ۔مگر یہ کیا۔مالی سے پوچھایہ کیسے پھول ہیں جن میں خوشبو نہیں۔اس پرمالی کا ماتھا ٹھنکا۔ اس نے مالک کو حیرانی سے دیکھا ۔ مالی کے اس طرح دیکھنے پر خود بڑے صاحب کو کو شک گزرا ۔اس نے سوچامالی نے مجھے عجیب نگاہوں سے کیوں گھورا ۔ صاحب اٹھے بنگلے کی راہداریوں میں سے ہو کر سیدھا بیڈ روم پہنچے ۔پرفیوم اٹھا کر سونگھا مگر ان کو کوئی خوشبو نہ آئی ۔اس پر انھوں نے ٹھنڈی آہ بھری ۔انھوں نے دل ہی دل کہاں اوہ کورنا مجھ تک پہنچ گیاہے۔تب سے انھوں نے اکیلے کمرے کی کھڑکی سنبھال رکھی ہے ۔تازہ ہوا کھاتے ہیں اور پرندوں کو اٹھلاتے ہوئے دیکھتے ہیں اور درختوں پر ان کی چہکار سنتے ہیں۔کھانے کے وقت کھانا آ جاتا ہے۔کورونا کے کارن ہمارے ہاں بہت پیچیدگیاں ہیں ۔تاجر دکانیں بند کرنے سے انکاری ہیں اور بعض سکول مالکان اپنے اپنے سکول کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔کہتے ہیں کہ اگر آنی ہے تو آئے گی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیںکہ آنی ہے اور اس میںدیر ہے پھر اس کو زبردستی تو گھسیٹ کر نہ لائیں۔اس کو جان بوجھ کر اپنے اوپر سخت گرمی میںکمبل کی طرح تان تو نہ لیں۔سناہے اب ڈنڈے برسائیں جائیں گے۔کیونکہ چھ فٹ کا فاصلہ جو نہیں رکھا جاتا۔پھر نہ ہی ماسک پہننے کی پابندی کی جاتی ہے۔مگر ستم یہ کہ جہاں چھ فٹ کا رونا ہے وہاں تو ان کو اٹھاکر حوالات میں درجنوں کے حساب سے ڈالا گیا ۔جو ایک دوسرے کی سانسوں کے چھ انچ قریب تھے۔اب ہر آدمی کے لئے جو کورونا کے اصولوں کی پاسداری نہیںکرے گا دس دس مرلے کے پلاٹ پر مشتمل یک شخصی لاک اپ تو بنایا نہیں جاسکتا۔مسئلہ بہت گھمبیر ہو تا جا رہاہے ۔ہم لوگ باز نہیں آتے۔ جو ماسک نہیں پہنتے ان کو اپنی غلطی پر ناز ہے۔ وہ کورونا کے نہ ہونے پر آپ کو دلیلیں دیں گے۔گا¶ں اور پرگنوں میں تو ماسک کی پابندی خاک نہیں ۔البتہ شہر میں جو شہری بابو ہیں ان کو سمجھ بوجھ ہے اور وہ بھی کچھ نہ کچھ ہے ۔جس کے بل بُوتے پروہ اتنا کرتے ہیں کہ ماسک پہن کر ماسک کو کھینچ کر ہونٹوں کے نیچے ٹھوڑی پر گھسیٹ لیتے ہیں۔تاکہ رسم قائم رکھ سکے ۔ان کاکام بھی چلے اور پکڑ دھکڑاور جرمانہ کرنے والے باوردی اہلکاروں کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں۔ویسے بات یہ ہے کہ ماسک پہننے سے بھلاچنگاآدمی بھی سانس کی تنگی محسوس کرتاہے۔اس کو بلاوجہ شک ہونے لگتا ہے کہ مجھے کورونانے آن گھیرا ہے۔پہلے کہتے تھے کہ پچاس کے اوپرلوگوں کو یہ وائرس جلد اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ مگر بعد کے اعداد و شمار جو سامنے آئے ان سے معلوم ہوا کہ اس وبا نے زیادہ تر نوجوانوں کو آن دبوچا ۔پھر اب کہا جا رہاہے کہ بچے بھی اس کاشکارہو رہے ہیں۔ماحول کچھ ایسا بن گیا ہے کہ ہاتھ ملاتے ہیں اور بے دھڑک ۔ان کے دل میں سے جیسے ڈر کسی نے چھین لیا ہے ۔کیونکہ جس کو کورونا ہوگا اس کے چہرے پراس کی کوئی نشانی نمودار تو نہیںہوگی۔اب تو کورونا ہر گھر میں نہ سہی ہر تیسرے گھر میں کوئی نہ کوئی اس میں مبتلا ہے ۔کسی کو اپنے مریض ہونے کے بارے میں پتا ہے اور کسی کو پتا نہیں۔پھر اس کی نشانیاں بھی تو مشترکہ نہیں۔کسی کو تو کوئی نشانی عیاں نہیںہوتی اور وہ کورونا کامریض ہوتا ہے۔اس کی نت نئی علامات سامنے آ رہی ہیں۔ میاں بیوی کو ہوا تو میاں کی سانس خراب ہوئی ۔ جبکہ بیوی کو الٹیاں لگ گئیں۔ بیوی کو تو جو علاما ت معلوم تھیں وہ تو نہ تھیں ۔اس لئے وہ کورونا کی مریضہ کیوں ہو ۔مگر گیارہ دن جب الٹیاں نہ رکیں اور وہ سوکھ کر ٹانٹا بن گئی۔سپیشل ڈاکٹر کے پاس گئی ۔وہاں سے مشورہ ملا کہ آپ کورونا کاٹیسٹ کروائیں۔ سو جب ٹیسٹ ہواتوپتا چلا کہ بیوی کو تو کوروناہے۔خاوند الگ قرنطین کی تنہائی میں ڈال دیاگیا اور بیوی جدا لگ تھلگ ہوگئی شادی بیاہ جاری ہیں ۔حالانکہ شادی ہالوںپر پابندی ہے اور پھر دفعہ ایک سو چوالیس بھی نافذ ہے ۔چار بندے کہیں اکٹھے پائے گئے تو دھر لئے جائیں گے۔پھر ایک ہی حوالات میں چھ انچ کے فاصلے پر کھڑے کر کے ان کے فوٹو اتارے جائیںگے۔گھروں میں بھی شادی پر پابندی ہے ۔مگر گھروں میں شادیاں تو کیا ہال میں بھی شادیاں جاری ہیں۔جب تک ہم خود اس بیماری کا علاج اپنے ارادے سے نہیںکریں گے نہیںہوگا۔اب ویکسین کتنی آئے گی اور کس کو پہلے لگے گی۔ہر آدمی چاہتا ہے کہ میرے مریض کو پہلے ویکسین لگے ۔