طالبان کی رضامندی؟۔۔۔

29 فروری2021 کے امریکہ طالبان معاہدے کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاءکی تاریخ میں ایک مہینہ باقی رہ گیا ہے اور امریکہ نے اپنی فوج کے قیام میں توسیع پر طالبان کی رضامندی کےلئے ان سے رابطہ کیا ہے۔ تاہم طالبان نے ابھی اس کا واضح جواب نہیں دیا ہے۔امریکہ کہتا ہے اس نے افغانستان سے نکلنے کا ارادہ کرلیا ہے لیکن یکم مءتک بوجوہ مکمل انخلاءمشکل ہے۔ امریکہ کا مخمصہ یہ ہے کہ اگر امریکی اور اتحادی افواج بین الافغان معاہدے سے قبل افغانستان سے نکلتی ہیں تو یہاں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی اور اگر وہ طالبان کی رضامندی کے بغیر یہاں باقی رہتی ہیں تو طالبان کا سخت ردعمل آئے گا اور خدشہ ہے کہ وہ بین الافغان مذاکرات سے ہی نکل جائیں گے۔اس لیے امریکہ چاہتا ہے یہاں امریکی فوج کے قیام میں تھوڑی توسیع تو ہوجائے مگر ایسا طالبان کی رضامندی سے ہوجائے۔ اس طرح اسے نیٹو اتحادیوں سے مشورہ کرنے اور سب افواج کو بحفاظت نکالنے کی مہلت مل جائے گی، طالبان بھی معاہدے کی خلاف ورزی پر ناراض ہونے، حملے شروع کرنے اور افغان حکومت سے اپنے مذاکرات معطل کرنے سے احتراز کریں گے اور اس دوران عبوری حکومت اور مستقبل کے آئین پر بین الافغان معاہدہ بھی ہوجائے گا جس کے بعد انتخابات کے ذریعے پرامن انتقال اقتدار ہوگا اور پھر افغانستان میں بین الاقوامی تعاون سے تعمیرنو کا کام شروع ہوجائے گا۔اطلاعات کے مطابق افغانستان کےلئے امریکی صدر کے مشیر زلمے خلیل زاد نے طالبان کے دوحا دفتر کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر سے ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ امریکی فوج کو افغانستان میں تین سے چھ مہینے قیام کی اجازت دی جائے۔جواب میں طالبان نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ دوحا معاہدے کے مطابق بقیہ 7000 طالبان قیدیوں کو رہا کرے اور طالبان حکام کے نام اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے خارج کردے۔طالبان نے اصرار کیا کہ امریکہ دوحا معاہدے کے مطابق یکم مئی تک اپنی فوج نکال لے۔ طالبان کہتے ہیں افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ ترکی میں بین الافغان مذاکرات میں افغان فریق خود کریں گے۔ یہی بات افغان قومی مفاہمت اعلیٰ کونسل کے نائب سربراہ اسد اللہ سعادتی نے کی کہ ترکی میں اقوام متحدہ کی زیرِ قیادت آئندہ اجلاس میں افغانستان کی تقدیر طے کی جائے گی اور امید ہے کہ ہم مسئلے پر کسی نتیجے اور سمجھوتہ تک پہنچ جائیں گے۔فروری 2020 کے امریکہ طالبان معاہدے میں طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ اور اتحادیوں کےلئے خود خطرہ نہیں بنیں گے، مغرب مخالف مسلح گروہوں سے تعاون نہیں کریں گے اور افغان حکومت اور گروہوں سے مذاکرات کریں گے۔ طالبان اور افغان حکومت کو باالترتیب ایک ہزار اور پانچ ہزار قیدی بھی رہا کرنے تھے۔ امریکہ نے پھر اپنی فوج سمیت تمام غیرملکی افواج افغانستان سے نکالنے، طالبان پر پابندیاں ختم کرنے، افغانستان میں بعد از مفاہمت اسلامی حکومت کے قیام اور تعمیرِنو کےلئے تمام اتحادیوں اور اقوام متحدہ کے تعاون سے وسائل دینے اور آئندہ افغانستان میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کیا۔ اس معاہدے پر افغان حکومت ناخوش تھی۔چنانچہ یہ کئی مہینے طالبان قیدی رہا کرنے سے انکار کرتی رہی اور بین الافغان مذاکرات تب شروع ہوسکے جب افغان صدر اشرف غنی اگست 2020 میں پانچ ہزار طالبان قیدی رہا کرنے پر راضی ہوئے۔افغانستان میں اس وقت 3500 امریکی اور آٹھ ہزار نیٹو افواج کے علاوہ تقریباً اٹھارہ ہزار نجی سیکورٹی کنٹریکٹرز موجود ہیں۔ ان کے محفوظ انخلاءکے علاوہ ڈھیر سارے اسلحہ اور سازوسامان کا محفوظ انخلاءیا اس میں سے کچھ افغان حکومت کے حوالے کرنا اور کچھ تباہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا جانا ہے۔ یہ سب کچھ جلد مشکل ہے چنانچہ امریکہ طالبان سے مہلت مانگ رہا ہے، اس نے طالبان اور افغان حکومت کا کام آسان کرنے کےلئے انہیں امن معاہدے کا مسودہ بھی پیش کردیا ہے اور وہ انخلاء سے قبل علاقائی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی مدد سے بین الافغان معاہدے کےلئے بھی کوشاں ہے۔امریکہ کوشش کررہا ہے کہ افغان مذاکرات کار اس ماہ ترکی میں افغانستان میں شراکت اقتدار، عبوری حکومت، مستقبل کے آئین اور مستقل یا عارضی جنگ بندی پر متفق ہو جائیں۔ لیکن افغان حکومت عبوری حکومت، سمجھوتے اور شراکت اقتدار کی مزاحمت کر رہی ہے کیونکہ اس سب کا مطلب اسکی رخصتی ہوگا۔ افغان صدر اشرف غنی نے تاجکستان میں کل ہونے والے اجلاس میں کہہ دیا ہے کہ امریکی معاہدے کے مطابق عبوری حکومت ان کی لاش پر ہی بن سکے گی اور یہ کہ وہ انتخابات کے بعد اپنے جانشین کو اقتدار حوالہ کریں گے۔طالبان کے حوصلے آسمان کو چھو رہے ہیں۔ وہ فتح سے سرشار ہیں اور ان کا انداز تحکمانہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں وہ جنگ جیت چکے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے بیس سال کے مقابل امریکہ کو اپنے ساتھ مذاکرات اور معاہدے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں اگر انہوں نے امریکیوں کو شکست دی تو کمزور افغان فوج انہیں ملک پر قبضے سے کیسے روک سکتی ہے جس کے حوصلے پست ہیں اور جو اپنی تربیت، نقل وحمل، تنخواہوں اور کارروائیوں کےلئے غیرملکی مدد کے محتاج ہیں۔افغانستان میں ہر طرف طالبان کا خوف طاری ہے وہ غالب طاقت بننا چاہتے ہیں چاہے ایسا طاقت یا جمہوریت اور انتخابات اور یا سیاسی معاہدے کے ذریعے ممکن ہو۔ لیکن اگر امریکہ کے مجوزہ منصوبے اور شراکت اقتدار کے متوقع معاہدے کے مطابق انہیں اقتدار ملنے کی امید پیدا ہوگئی ہے تو دوسری طرف انہیں دنیا کو ایک قابل قبول حکومت بنانے کےلئے اپنے کچھ نظریات سے پیچھے بھی ہٹنا ہوگا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان جانتے ہیں کہ افغانستان کے اخراجات کا 80 فیصد بین الاقوامی امداد پر منحصر ہے اس لیے وہ چاہیں بھی تو باقی دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے۔ چنانچہ برداشت اور سمجھوتے ان کی مجبوری ہیں۔ طویل جنگ کے بعد اب امن اور اس کے ساتھ اقتدار ملنے کے جو امکانات ان کےلئے پیدا ہوگئے ہیں وہ انہیں یقیناً ضائع نہیں کرنا چاہیں گے۔ چنانچہ امکان ہے کہ وہ امریکہ کی درخواست اپنے مزید قیدیوں کی رہائی اور کچھ پس وپیش کے بعد منظور کرلیں گے۔