ان کو لاج ہی نہیں آتی۔۔۔۔

سڑک پر کھدائی ہوگی۔دو دن تک مزدور لگے رہیں گے۔ تیس سال پہلے آئی ہوئی سوئی گیس کی پائپ لائن تلاش کریں گے۔ آخر کار زیرِ زمین دس پندرہ فٹ نیچے سے گذری ہوئی لائن نکال باہر کر یں گے۔وہاں سے نیا کنکشن لینے کی غرض سے نیا پائپ بچھا کر پاس کی دکان کو گلی کو گیس کی نئی لائن دلائیں گے۔پھر اس گڑھے کو بھر بھی دیں گے ۔ مگر وہاں جہاں کھدائی ہوئی ایک ٹیلہ سا زمین کے نیچے سے اُگ آئے گا۔جو پھر ہر آنے جانے والے کے لئے راہ کی بڑی رکاوٹ بن جائے گا۔ ان کو ہموار کرنابھول جائے گا۔ ویسے ہی چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ قسمت کے آسرے پر اس کو یونہی پڑا رہنے دیں گے۔ پھر دوسرے محکمے والے دور تک نظر نہیں آئیں گے جو آکر یہاں پہلے جیسی تارکول والی سڑک بچھا دیں۔ پھر یہ ایک جگہ تو نہیں کبھی سینکڑوں فٹ پائپ لائن بچھانا ہو تو یونہی پورے بازار کا بازار چھید ڈالیں گے ۔ وہاں آثارِ قدیمہ جیسی کھدائی کے مناظر جا بجانظر آئیں گے۔ گلی محلے میں پائپ لائن نئی بچھا دی جائے گی ۔مگر سینکڑوں فٹ دور تک جاتی ہوئی کھدائی کی یہ پٹی یہ معاشرے کی خوبصورتی پر ماتھے کا ٹیکہ اس بد صورتی کو خوبصورتی میں تبدیل کرنے والا سالوں تک نہیں آئے گا۔ ایسی کئی جگہیں ہیں جو برسوں سے تعمیر کاانتظار کر رہی ہیں ۔ جہاں یہی لوگ اک بار جو آئے تو زمین کھود کریوں گئے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ کسی بھی جگہ کہیں بھی بغیر کسی سرکاری اجازت کے ہمارے شہری گھروں کے باہر ہتھوڑی اور چھینی لے کر بیٹھ جائیں گے اور مزدور لگا کر دھرتی کے سینے کو زخمی زخمی کر کے وہاں سے آر پار نالیاں بنا لیں گے۔ اپنے گھر کے سکون کی خاطر شہر کا سکون برباد کر دیںگے۔ اس پر ناز کریں گے ۔۔بڑے بڑے پلاسٹک کے پائپ بچھانے کےلئے سڑک کو برباد کر دیں گے ۔ اس کے حسن کو گہنا دیں گے ۔ وہاں ایک کھڈا بنا دیں گے ۔ یا پھر اسی پائپ لائن کے ڈھلوان کو مزید فنکاری کر کے سپیڈ بریکر میں بدل دیں گے۔کیونکہ ان کے گھر کا گندا پانی بیچ سڑک کے اس پار نالے تک لے کر جانا ہے ۔ شاید اس کی ان کو اجازت ہو مگر مسئلہ یہ نہیں ہے ۔مسئلہ بے پروائی کا بھی نہیں مسئلہ لاپر وائی کا ہے ۔ان کو خیال ہی نہیں آتا کہ ہم نے کیا برباد کر دیا ہے۔ جگہ جگہ ایسے مناظر ہیں ۔ان کے ہاتھوں پورا شہر آثارِ قدیمہ کی کھدائی کا منظر پیش کر رہاہے ۔گڑھے ہیں کہیں رکاوٹیں ہیں سڑکیں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہیں۔ ایک تو بارش نے جو مسلسل رہی سڑکوں کے تارکول اکھاڑ کر رکھ دیئے ہیں ۔جہاں جہاں سیمنٹ تھا اس کو تلپٹ کر دیا ہے۔ ایک تو پہلے ہی ہم نے خود گڑھے اور کھڈے بنائے اور پھر بارش نے اپنے کارنامے بتلا دیئے۔ ہمارے ہاں کی تعمیر بھی ناقص ہوتی ہے۔ اک ذرا بارش ہو جائے تو سڑکوں کا حال دیکھو ۔ جگہ جگہ تالاب کا منظر ہوتا ہے۔ جہاں گڑھے ہوتے ہیں وہاں پانی جمع ہو تاہے ۔جن کے پاس سڑکوں کی درستی کیلئے فنڈز موجود ہیں ۔جن کو یہ کام حوالے ہے ان کی تلاش ہوتی ہے ۔ہمیں سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے ۔ یہ کہ ہم اپنی ہی چیزوں کو خراب نہ کریں۔ اپنے گھر کو تو ہم درست رکھیںگے۔ مگرجہاںتک ہمارا بس چلے اور جہاں جہاں جس جگہ چلے ہم نے راستے کو خراب کرنا ہے۔ وہ اس لئے کہ ہمارا دروازہ بھی اگر کوئی بجا کر بھاگ جائے تو ہم اس کی جان کو آجاتے ہیں۔ مگر سڑک کو ہتھوڑی اور چھینی کے ساتھ خراشیں ڈال کر برباد کر دیں تو ہمارے ضمیر پرکوئی ملامتی نہیں ۔ ہمیں اس بات کاخیا ل ہی نہیں آتا کہ ہم نے کیا کر دیاہے ۔ہمارے گھر کے باہر کی دیوار کو ذرا برابر بھی کوئی چھیڑے ۔مگر کیوں چھیڑے ہم نے اس کو دن میں تارے بتلا دینا ہیں ۔ مگر سڑکوں کو راستوں کو ہم سب مل کر خراب کرتے ہیں اور ہمیں اس پر ذرا لاج نہیں آتی کہ یہ ہماری سب کی مشترکہ میراث ہے ہمارا پنا شہر ہے ہم کو اس پردکھ پہنچنا چاہئے جب کوئی ہماری اپنی املاک اس سڑک کو برباد کرنے کی کوشش کرے ۔ مگر نہیں جو سڑکوں راستوںدیواروں کو پوسٹروں سے خراب کرے ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ایک بار پوسٹر لگا دیں تو پرائی دیوار پر سے اتارنا بھول جاتے ہیں۔ جب تک کہ وہ تقریب ختم ہو جائے اور اس کو ایک سال گذر جائے تب تک بھی ہمیں دھیان نہیں آتا کہ جو چھینٹیں دیواروں پر اچھال دی ہیں اب پروگرام کے ختم ہونے کے بعد ان پوسٹروں اور اشتہار وں کو وہاں سے اکھاڑ کر دیوار کو صاف تو کردیں۔ وہاں جو اشتہارات ہم نے بلا کسی سے پوچھے لگا دیئے ان کو مٹا دیں۔ بلکہ دیواریں تو ہمارے لئے ہمارا من بھاتا شکا رہیں ۔آئیں گے زمین پر اشتہار کا پوسٹر الٹا بچھا کر اس پر شریس کے ڈبے سے لیٹی کو برش سے نکال کر اس پر لیپ کر کے دیوار پر چسپاں کر دیں گے۔ خوش ہوں دور نزدیک سے اپنے اشتہار کو دیکھیں گے ۔پھرگھر یا دفتر واپس آکر چائے کے گھونٹ چڑھا کر فخر سے اپنی زندگی میں کھو جائیں گے۔