کسی ملک میں باد شاہ تھا باد شاہ کا تکیہ کلا م” زلزلہ “تھا کوئی بات ہو تی کوئی عرضی آتی کوئی تجویز آتی کوئی خبر آتی وہ ایک ہی بات کر تا ” زلزلہ “ رعایا اپنے باد شاہ کو مجذوب سمجھ کر ان سے محبت کرتی تھی باہر کے ملکوں سے مہما ن آتے تو بادشاہ کی باتیں سن کر حیراں ہو تے تھے زلزلہ کیوں ؟ آخر باد شاہ کی زبان اسی ایک بات پر کیوں اٹکی ہو ئی ہے ؟ جس ملک کا وہ باد شاہ تھا اُس ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی زرعی پیداوار کی بہتات تھی گیس اور تیل کے بڑے بڑے ذخا ئر تھے بندر گاہوں پر تجا رتی سا مان لیکر جہاز آتے تھے کارخانوں کا ما ل قریبی مما لک میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا دور دراز کے مما لک کےلئے بھی جہا ز بھر کر بھیجے جا تے تھے اوپر سے دیکھو تو ملک دولت سے ما لا ما ل تھا اس کے باو جو د غربت بہت زیا دہ تھی ، بے روز گاری حد سے بڑھی ہوئی تھی دفاتر میں رشوت کے بغیر کام نہیں ہو تا تھا ، عدا لتوں میں صرف دولت مند طبقے کے مقدمات پر غور ہو تا تھا غریبوں کے مقد مات کئی سا لوں تک التوامیں پڑے رہتے تھے ملک کے تر قیاتی بجٹ کا بڑا حصہ بد عنوا نی کی نذر ہو جا تا تھا 10کروڑ روپے کا پُل زیر تعمیر ہو تو 6کروڑ روپے غا ئب ہو جا تے تھے صر ف 4کروڑ روپے پُل پر لگا ئے جا تے تھے ایک دن باد شاہ کا دربار لگا ہواتھا ہمسایہ ملک سے آنےوالا مہمان بھی دربار میں بیٹھا ہوا تھا دربار میں چارسائل آگئے ایک نے التجا کی عا لیجا ہ ! میرے دو بیٹے ما رے گئے قا تلوں کو گرفتار کرنے کے بعد چھوڑدیا گیا میں فر یا د لیکر آیا ہوں رحم کیجئے باد شاہ نے پر سکون لہجے میں کہا ” زلزلہ “ دوسرا سائل آیا اُس نے اپنی عرضی پیش کر تے ہوئے کہا جہاں پناہ ! 8سالوں سے در یا میں طغیا نی آرہی ہے میرے سر سبز کھیت اور ہرے بھرے باغات دریا کے کٹاﺅ کی وجہ سے ہر سال برباد ہو رہے ہیں میں نے ہر ایک دروازے پر دستک دی ہے کسی نے نہیں سنی اس لئے آپ کی بار گاہ میں حا ضر ہوا ہوں میرے حال پر رحم فر ما ئیے میرے جائیداد کو دریا کے کٹا ﺅ سے بچا نے کےلئے بند ھ باندھنے کا حکم دیجئے‘ باد شاہ نے پر سکون لہجے میں کہا ” زلزلہ “ تیسرا سائل آیا اُس نے اپنی کتھا یوں سنا ئی ”عالیجا ہ ! میر ی بیٹی 4سال بیرون ملک تعلیم کرنے کے بعد وطن واپس آ کر 2سا لوں سے در در کی ٹھو کر یں کھا رہی ہے نہ اس کو پرانی نو کری پر دو بارہ بحا ل کیا جا تا ہے نہ نئی پو سٹ کےلئے اس کی ڈگری پر غور ہو تا ہے اب وہ تنگ آ کر واپس دیارغیر جا نے کی تیاری کر رہی ہے آپ غریب پرور ہیں میری بیٹی کی اعلیٰ تعلیم کو ملک اور قوم کےلئے مفید بنا نے کےلئے اس کو ملک کے اندر منا سب روزگار دیکر بیرون ملک جا نے سے بچا لیجئے ! “ بادشاہ نے کہا ” زلزلہ “ چو تھا سائل آیا اُس نے التجا کر تے ہوئے کہا ظل الٰہی ! مجھے 15سال پہلے سر کاری ہسپتال بنا نے کا ٹھیکہ ملا تھا میںنے کام مکمل کیا اب مجھے بل ادا کرنے کےلئے محکمہ کے پاس پیسے نہیں ہیں میں نے اپنی جمع پو نجی ہسپتال کی تعمیر پر لگا ئی اب میں کوڑی کوڑی کا محتاج ہو ں میرے حال پر رحم کیجئے باد شاہ نے کہا ” زلزلہ “ دربار یوں کو اس طرح کے دربار کی عادت تھی اجنبی بہت حیراں ہوا حیرت کے ما رے اُس نے کہا عالیجا ہ ! جا ن کی امان پاﺅں تو کچھ عرض گزار وں ! بادشاہ نے اجا زت دی تو اس نے کہا آپ ہر درد کی دوا کے طور پر ” زلزلہ “ کا نا م لیتے ہیں اس میں کیا حکمت ہے ؟ باد شاہ نے کہا میں جس دن تخت پر بیٹھا میرا خیال تھا کہ رعا یا کی دل کھول کر خد مت کروں گا لیکن یہاں پر تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، پوری عمارت کو ڈھانے کے بعد دہی کئی نئی عمارت بن سکتی ہے اور یہ کام اب کوئی زلزلہ ہی کر سکتا ہے ۔