الہ دین کا چراغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس حد تک کہ ہمارے پیاروں نے اپنے موبائل کا چارجر بھی ساتھ جیب میں گھمانا شروع کر دیا ہے ۔جہاں کہیں بیٹھے جس کا گھر ہو کوئی حجرہ ہو کوئی دفتر ہو دکان ہو وہاں لگا دیا تاکہ موبائل چارج ہو جائے ۔ کیونکہ اس میں دیکھنے کو بہت تماشے ہیں ۔ ان کھیل تماشوں سے محروم ہو جانا بندہ کو گوارا نہیں ہوگا۔مگر ضرورت کے مطابق ہو تو درست ہے ۔ اگر ضرورت سے زائد ہو تو ناجائز ہے۔ کیونکہ اس سے بہت سے کام ادھورے کے ادھورے رہ جاتے ہیں۔ بچے ہیں یا بڑے ہیں گھر میں ہیں یادفتر میں ہیں ناکارہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ماں باپ کی ملامت سنتے ہیں ۔کیونکہ کام سر کھا رہے ہو تے ہیں اور سر میں اک اور سودا لے کر اس میں سر کھپا رہے ہوتے ہیں۔وہ کیا ہے جو یہاں مہیا نہیں ہے ۔ذرا سے رنگین موبائل کی سکرین پر ہر چیز دھڑک رہی ہے ۔اس چراغ کو جو کہا جائے لا حاضر کرے گا۔ مگربعض چیزیں اس کی دسترس میں نہیں ہیں۔ گئے گذروں کو تو سامنے لے آئے گا۔ مگر ان سے ہاتھ نہیں ملایا جا سکے گا۔زندوں سے بھی ملوا دے گا مگر ہاتھ نہیں ملوائے گا۔بہت کچھ اس کے قبضے میں ہے اور بہت کچھ اس کی پہنچ سے دور ہے ۔مگر جہاں تک ضرورت کی بات ہے ہماری ہر طرح کی ضروریات اس کے سہارے پوری ہوجاتی ہیں۔ کوئی معلومات درکار ہوں مہیا کر دے گا۔ جس کے بارے میں جاننا ہو بتلا دے گا۔ مگر خبروں کی حد تک ۔کیونکہ خبر کا تعلق مشہور لوگوںسے ہو تاہے ۔یا پھر ان دنوں مشہوریوں سے ہے۔ کوئی پروگرام دیکھ رہے ہوں کوئی نہ کوئی کمپنی اس کا اشتہار بیچ میں ٹانگ اڑا دے گا۔ اگر یہ چیز فائدہ کےلئے بنی ہے تو اس سے فائدہ لینا چاہئے۔ اپنی کم علمی کو دور کرنا چاہئے اگر کچھ پتا نہیں تو پتالگا لیں۔ کسی بھی وقت کی خبریں کسی بھی چینل کی دیکھ لیں۔ یوٹیوب نے تو بس دنیا فتح کر لی ہے ۔ یو ٹیوب کی کوئی ویڈیو دیکھیں تو کہا جائے گا اس کو سبسکرائب کریں۔ کون سی دیکھیں کون سی چھوڑیں ۔کسے سبسکرائب کریں کس کو لائک کریں اور کسے ناپسند کریں۔ایک طوفان ہے ۔ جس کی کوئی سمت معلوم نہیں کہ کہاںسے چلا آیا او رکچھ پتا نہیں کس سمت کو رواں ہے ۔ مگر جب بہتا چلا جا رہا ہے تو سب کچھ ساتھ تنکے تیلیوں کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔کہیں تو جہالت کو ساتھ لے کر چلتا بنا ۔پھرکہیں اخلاقیات کو گردن سے دبوچ کر سیلاب کی طرح ساتھ لے گیا۔کوئی بندہ ایسا نہیں ہوگا جو اس کے جادو کے چکر سے نکل سکے۔ اگر کسی کے ہاتھ میں نہیں تو مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی مالی پہنچ کم ہے ۔پھر اس کو گھر سے منع کیا گیا ہے۔ مگر دیکھتا ہر کوئی ہے ۔ہاں اس کو دیکھنے جانچنے پرکھنے اور پرکھ پرچول کرنے والوں کے الگ الگ اوقات ہیں ۔وہ خبریں جن سے عوام ہیں تو باخبر مگر ٹی وی والے چھپاتے ہیں یو ٹیوب پر دیکھ لیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی ہے اور اتنی کہ مادر پدر آزادی کہہ لیں ۔کسی واقعہ کے بارے میں جو کچھ دنوں پہلے وقوع پذیر ہو چکا ہو جاننا ضروری ہو۔ پھراس کا نام پتا نہ مل رہا ہو تو اس کو یوٹیوب پر گوگل پر کہیں نہ کہیں سے برآمد کیا جا سکتا ہے۔سیاسی جلوس ہو یا جنازہ کی رو ہو یا کسی شادی کا ہنگام ہو ۔براہِ راست دوسرے ملک میں اپنے نمبر پر سے رشتہ داروں کو دکھلا سکتے ہیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہزاروں چینلوں کے ہوتے سوتے بندہ کون سا چینل دیکھے ۔ وہ جو پہلے انسائیکلو پیڈیا میں بھی نہیں ملتا تھا۔ وہ جو موٹی موٹی کتابوں کی ورق گردانی کر کے بھی حاصل نہیں ہوتا تھا ۔ وہ اب چٹکی بجاتے بلکہ چٹکی بجانے میں بھی دیر لگے گی یا شاید چٹکی کی آواز ٹھیک نہ نکلے ۔یہاں تو عالم یہ ہے کہ صرف انگلی ہلانے کی دیر ہے اور الہ دین کا جن سب کچھ حاضر کرے گا۔کورونا کی وبا تو آخر ختم ہو جائے گی۔ مگر موبائل کی یہ وبا جو ایک ہاتھ سے دوسرے کو منتقل ہو رہی ہے ۔بہت شدید ہے اور مزید شدت اختیار کر جائے گی۔