فخر کا رن آو¿ٹ ،قاعدہ اور قانون۔۔۔

دوسرے ونڈے میں فخرز ما ن نے جس ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش کی وہ تو نہ کرسکاتاہم یہ میچ کئی حوالوں سے یادگار رہا اور کئی دن گزرنے کے باوجود اس میچ کے تذکرے جاری ہیں۔اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ کرکٹ کو ایک متوازن کھیل ہونا چاہیے، جس میں گیند اور بلّے کا مقابلہ برابری کی بنیاد پر ہو۔ لیکن قانون تو قانون ہے، جب تک رائج ہے اس پر عمل کرنا پڑے گا تو جس قانون کا اس وقت بہت زیادہ شور مچا ہوا ہے وہ '41.5.1' ہے، جس کے مطابق ‘اسٹرائیک پر موجود بلے باز کے گیند کا سامنا کرنے کے بعد کسی بھی فیلڈر کی جانب سے زبانی کلامی یا عملی طور پر بلے باز کا ذہن منتشر کرنا، اسے جھانسا دینا یا اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا نامناسب ہے۔ اور اگر اس طرح کی صورتحال پیدا ہو تو پھر کرکٹ قوانین کے مطابق فیصلہ ہوگا۔کرکٹ قوانین کا رکھوالا ‘میریلبون کرکٹ کلب’ (ایم سی سی) کے مطابق قانون بالکل واضح ہے کہ جھانسا دینے کی کوشش ہی غیر قانونی ہے۔ اگر امپائر سمجھتے ہیں کہ یہ کوشش کی گئی ہے تو وہ بیٹسمین کو ناٹ آو¿ٹ قرار دیں گے، بیٹنگ کرنے والی ٹیم کو پنالٹی کے 5 رنز دیں گے اور ساتھ ہی یہ اختیار بھی کہ وہ اپنی مرضی کے بیٹسمین کو سٹرائیک دے۔اب اس منظرنامے کے ساتھ پاک‘جنوبی افریقہ دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل کے آخری اوور کو دیکھیں، جس میں پاکستان کو 31 رنز کی ضرورت تھی۔ پہلی گیند پر فخر زمان نے لانگ آف کی جانب شاٹ کھیلا اور دوڑ پڑے۔ جب وہ دوسرا رن مکمل کرنے کےلئے اپنے اینڈ کی طرف دوڑ رہے تھے تو جنوبی افریقی وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کوک نے فخر کی طرف دیکھتے ہوئے نان اسٹرائیکنگ اینڈ کی جانب اس طرح اشارہ کیا گویا دوسرے اینڈ پر موجود بیٹسمین رن آو¿ٹ ہونے والا ہے۔ فخر زمان نے بھاگتے ہوئے مڑ کر پیچھے دیکھا لیکن وہاں تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ دراصل لانگ آف سے آئیڈن مارکرم کا پھینکا گیا تھرو انہی کے اینڈ پر آ رہا تھا اور براہِ راست وکٹوں پر جا لگا۔ لمحے بھر کی جو غفلت پیچھے مڑ کر دیکھنے کی وجہ سے ہوئی، وہ کافی ثابت ہوئی اور فخر کی اننگز رن آو¿ٹ کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔یہ کوئی معمولی اننگز نہیں تھی، 342 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جس ٹیم کی دوسری سب سے بڑی اننگز 31 رنز کی ہو اور تیسرے نمبر پر ایکسٹرا کے25 رنز موجود ہوں، وہاں 155 گیندوں پر 18 چوکوں اور 10 چھکوں کی مدد سے 193 رنز بنانا ناقابلِ یقین لگتا ہے۔پاکستان یہ میچ صرف 17 رنز سے ہارا اور اگر ڈی کوک کی اس حرکت کو غیر قانونی قرار دیا جاتا تو ہوسکتا تھا کہ نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ کیونکہ قانون کے مطابق پاکستان کو فخر کے دوڑے گئے دونوں رنز ملتے، ساتھ ہی پنالٹی کے 5 رنز اور گیند بھی دوبارہ پھینکی جاتی یعنی ہدف 6 گیندوں پر 24 رنز ہو جاتا۔ بلاشبہ مارکرم کا تھرو کمال کا تھا جو اتنی د±وری سے پھینکے جانے کے باوجود براہِ راست وکٹ پر جا لگا لیکن بار بار دیکھنے سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اگر ڈی کوک ان کی توجہ دوسری جانب مبذول کرنے کی کوشش نہ کرتے تو فخر باآسانی کریز تک پہنچ جاتے۔ گوکہ فخر نے اس معاملے کی آگ بجھانے کی کوشش کی اور میچ کے بعد کہا کہ وہ آو¿ٹ ہونے کو اپنی غلطی سمجھتے ہیں۔لیکن معاملہ صرف اس رن آو¿ٹ تک محدود نہیں۔ 47 ویں اوور میں جنوبی افریقی کپتان تمبا باووما کے ہاتھوں فخر زمان کا ایک کیچ چھوٹا تھا۔ اسے پکڑنے کے دوران گیند ان کی ٹوپی سے لگ گئی تھی۔ کرکٹ قانون 28.2.2 کے مطابق اگر فیلڈر کے جسم سے حادثاتی طور پر گرنے والی کوئی بھی چیز جو لباس کا حصہ ہو، گیند کو چھو جائے تو پنالٹی کے 5 رنز ملتے ہیں۔یعنی یہ میچ مکمل طور پر امپائروں علا الدین پالیکر اور مرے ایرسمس کی نااہلی، یا پھر حب الوطنی، کا شاہکار تھا۔لیکن پاکستانی شائقین کو اصل غم میچ کی شکست کا ہے ہی نہیں۔ ضروری نہیں کہ اس کے باوجود پاکستان میچ جیت جاتا، لیکن جس کا امکان بہت زیادہ تھا وہ فخر کی ڈبل سنچری تھی۔فخر پاکستان کے لیے ون ڈے کرکٹ میں سب سے بڑی 210 رنز کی اننگز کا ریکارڈ رکھتے ہیں اور واحد بلے باز ہیں جنہوں نے ملک کےلئے اس فارمیٹ میں ڈبل سنچری بنا رکھی ہے۔ لیکن جوہانسبرگ میں ایک مرتبہ پھر 200 رنز کا ہندسہ عبور کرتے تو ون ڈے تاریخ کے پہلے بلے باز بن جاتے کہ جنہیں دوسری اننگز میں یہ کارنامہ انجام دینے کا اعزاز حاصل ہوا۔اب تک تمام ون ڈے انٹرنیشنل میں جتنی ڈبل سنچریاں بنی ہیں، وہ پہلی اننگز میں بنائی گئی ہیں۔ دباو¿ سے پاک حالات میں، جبکہ فخر کو جس صورتحال کا سامنا تھا، وہ کہیں گمبھیر تھی۔ دوسرے اینڈ سے وکٹیں گرتی جا رہی تھیں بلکہ 120 رنز پر آدھی ٹیم واپس جاچکی تھی۔ اس صورتحال میں کسی بلے باز کا ڈبل سنچری بنانا ایک بہت بڑا کارنامہ ہوتا۔پھر بھی حالات اور واقعات کے تناظر میں فخر کی 193 رنز کی اننگ بلاشبہ ون ڈے کرکٹ کی تاریخ کی بہترین اننگز میں شمار ہوگی۔اس پورے معاملے کا ایک پہلو، جس پر بہت کم بات ہوئی ہے وہ پاکستان کے کھلاڑیوں کی حاضر دماغی ہے۔ آسٹریلیا، انگلینڈ اور دوسرے ملکوں کے کھلاڑی قوانین سے آگہی اور حاضر دماغی میں لاجواب ہیں جبکہ پاکستان کے کھلاڑیوں کی اس صلاحیت پر ہمیشہ سوالیہ نشان رہتا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ بہت پہلے سے ایسا ہوتا آ رہا ہے۔ مثلاً 2003ءمیں پاکستان کے دورہ نیوزی لینڈ کے دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان کو چوتھے دن کے آخری لمحات میں جیتنے کے لیے 28 رنز کی ضرورت تھی۔موسم بالکل ٹھیک تھا، کریز پر انضمام 57 اور محمد یوسف 73 رنز ناٹ آو¿ٹ پر کھیل رہے تھے۔ اضافی وقت کا فائدہ اٹھا کر اسی دن میچ کو ختم کرنا چاہیے تھا لیکن جیسے ہی دن کے اوورز ختم ہوئے تو کپتان انضمام الحق نے پویلین واپسی کی ٹھان لی، حالانکہ ٹیسٹ کے آخری روز شدید بارش کا امکان تھا۔انضمام کو اپنی اس بھیانک غلطی کا احساس بعد میں ہوا۔ ایک بار انہوں نے بتایا تھا کہ خوف سے ساری رات انہیں نیند نہیں آئی تھی کہ اگر صبح بارش ہوگئی اور پیش گوئی کے مطابق دن بھر ہوتی رہی تو جیتا جتایا میچ اور سیریز ہاتھ سے نکل جائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ اگلے روز انضمام نے ناشتہ تک نہیں کیا اور میدان میں اتر گئے۔ 4 اوورز بھی نہیں گزرے کہ باقی ماندہ 28 رنز مکمل کرلیے۔ ری پلے دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ رن آو¿ٹ کے باوجود ایک لمحے بھی ایسا نہیں لگا کہ فخر کو یہ خیال آیا ہو کہ ڈی کوک کی اس حرکت کے خلاف اپیل کرنی چاہئے اور امپائروں کے ساتھ ساتھ ٹیم انتظامیہ بھی سوتی رہی۔ ان سے زیادہ حاضر دماغی تو کمنٹیٹرز نے دکھائی کہ جنہوں نے فوری طور پر اس حرکت پر ردِعمل دکھایا بلکہ تمبا باووما کے کیچ والے معاملے پر بھی بات کی۔سوشل میڈیا پر ہنگامہ تو کھڑا ہونا تھا، آخر اس میچ میں امپائرنگ ہی اتنے گھٹیا معیار کی ہوئی۔یوں پاکستان نے اپنی غائب دماغی سے میچ کے ساتھ سیریز جیتنے کا موقع گنوا دیا۔