امریکا اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات دوبارہ شروع

کینبرا:آسٹریا کے دارلحکومت ویانا میں امریکا اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کل سے دوبارہ شروع ہو رہے ہیں، فریقین کے درمیان یہ بات چیت یورپی یونین کے توسط سے ہو رہی ہے۔

 ایران نے امریکا کی طرف سے عائد اقتصادی پابندیوں کے خاتمے تک واشنگٹن سے براہ راست بات چیت سے انکار کر رکھا ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق امریکا اور پانچ دیگر عالمی طاقتوں نے 2015ء میں صدر باراک اوباما کے دور میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا تھا، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018میں اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ ہو گئے تھے۔

 واشنگٹن میں صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکا یہ معاہدہ بحال کرنا چاہتا ہے،امریکا کے علاوہ چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ بھی اس عالمی ڈیل کا حصہ ہیں۔

دریں اثنا امریکہ نے کہا ہے اگر ایران جوہری معاہدے کی تعمیل کرتا ہے تو وہ اس کے خلاف اہم پابندیوں پر نظر ثانی کے لیے تیار ہے۔امریکی صدر جوبائیڈن 2015 کے جوہری معاہدے میں واپس جانا چاہتے ہیں تاہم وہ بات پر مصر ہیں کہ ایران پہلے جوہری پروگرام کی خلاف ورزیوں کو روکے۔

امریکہ محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ امریکہ پابندیاں اٹھانے پر غور کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن صرف ان پابندیوں سے جو جوہری معاہدے سے متعلق ہیں۔انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر یکطرفہ اقدامات قبول نہیں کیے جائیں گے۔

جوہری معاہدے کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ اس کا فارمولا آج بھی وہی ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام کے مستقل طور پر روکنے کے بدلے پابندیوں کا خاتمہ ہوگا۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ کا کہنا ہے کہ ’چاہے جوائنٹ کمیشن کا ایجنڈا نتیجہ خیز ثابت ہو یا نہیں لیکن یورپین ممالک اور مذاکرات میں موجود دیگر ممالک وہ شرائط یاد دلائیں گے جن پر امریکہ نے عمل کرنا ہے۔