خیبر پختونخوا کی صو بائی حکومت نے ملا کنڈ تھر ی کے نا م سے منسوب در گئی بجلی گھر کی بجلی واپڈا سے واپس لیکر خود تقسیم کر نے کےلئے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا ہے پن بجلی کے جاری اخراجات کا موازنہ اس کی ما ہانہ آمدن سے کیا جائے تو 75فیصد فائدہ کا تخمینہ لگا یا جا تا ہے واپڈا سے واپس لینے کے بعد یہ بجلی صو بے کے اندر صنعتی اور تجا رتی سر گر میوں میں استعمال ہو گی معا شی تر قی میں اضا فہ ہو گا بے روز گاری کی شرح کم ہو گی غربت میں بھی کمی آئیگی ملا کنڈ کا تیسرا بجلی گھر دفتری زبان میں ملا کنڈ تھری کہلا تا ہے اس کی لمبی تاریخ ہے جس کا آغاز انگریزوں کے دور سے ہوتا ہے 1918ءمیں دریا ئے سوات سے نہر لاکر درگئی کی زمینا ت کو سیراب کرنے کا منصو بہ بنا یا گیا اس منصو بے کے تحت امان درہ سے جبن تک ساڑھے تین (3.5) کلو میٹر سرنگ نکا لی گئی 1937ءمیں جبن کے مقا م پر 20میگا واٹ کا بجلی گھر تعمیر کیا گیا 20سال بعد1953ءمیں 20میگا واٹ کا دوسرا ٹر بائن لگا یا گیا جس کو ملا کنڈ ٹو (ملا کنڈ ۔2)کا نام دیا گیا 2004میں صو بائی حکومت نے شائیڈو (SHYDO) کے ذریعے در گئی کے مقام پر تیسرا بجلی گھر بنا نے کا منصو بہ بنا یا جس کو ملا کنڈ ۔3کا نا م دیا گیا اس منصو بے پر وفاقی حکومت واپڈا کے ذریعے کام کر نا چاہتی تھی لیکن صو بائی گور نر افتخار حسین شاہ نے صدر مشرف کے ساتھ اپنے تعلقات اور وفاق میں اپنے بے پنا ہ اثر رسوخ کے بل بوتے پر یہ منصوبہ واپڈا سے چھین لیا اس وقت واپڈا کے دو منصو بے درال خوڑ اور گولین گول زیر تعمیر تھے مگر تعمیراتی کام کی رفتار بہت سُست تھی افتخار حسین شاہ نے ملا کنڈ ۔3کا منصو بہ 3سال کی ریکارڈ کی مدت میں مکمل کرواکر اس کی بجلی معاہدے کے مطا بق واپڈا کے ہا تھ فروخت کر کے نیشنل گرڈ (Grid) میں شا مل کی ۔ یہ 80میگا واٹ بجلی ہے جو واپڈا کو دی گئی ہے اس اثنا میں صوبے کا نا م تبدیل ہوا تو شائیڈ و کو بھی پیڈو (PEDO) کا نا م دیا گیا پیڈو کے پا س سوات ، ہزارہ ، کو ہستان اور چترال میں بھی کئی پن بجلی گھر ہیں 2004سے پہلے اس کو 5میگا واٹ سے زیا دہ گنجا ئش والا پن بجلی گھر لگا نے کی اجا زت نہیں تھی 2004میں پہلی بار بڑے پن بجلی گھر پر کام کرنے کی اجا زت مل گئی اس اجا زت کے بعد ملا کنڈ ۔3اس کا پہلا بجلی گھر ہے 2007میں بجلی گھر کی تکمیل کے وقت سر حد چیمبر آف کا مر س اینڈ انڈ سٹری نے ملا کنڈ ۔3کی بجلی واپڈا کے ہاتھ فروخت کرنے کی مخا لفت کر کے صو بائی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ یہ ہمارے صوبے کا پہلا قابل ذکر بجلی گھر ہے اس کی بجلی صوبے کے اندر صنعتی ترقی پر لگائی جا ئے تو یہ صوبے کی معا شی خوشحالی کا پیش خیمہ ہو گا لیکن معا ہدہ ہو چکا تھا اور بجلی گھر کا منصو بہ اپنے ہا تھ میں لیتے وقت صو با ئی حکومت نے اس کی بجلی نیشنل گرڈ کو دینے کا وعدہ کیا تھا نیز ملک میں توا نا ئی کا شدید بحران تھا لوڈشیڈ نگ سے عوام تنگ آگئے تھے 80میگاواٹ کی بجلی واپڈ ا کے ہا تھ میں آنا توا نا ئی کے بحران سے نمٹنے کے لئے ضروری تھا واپڈا نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا خیبر پختونخوا کو مو جودہ حالات میں صنعتی شعبے کےلئے بجلی کی ضرورت ہے ملاکنڈ ۔3کی بجلی اس ضرورت کو کسی حد تک پوری کر سکتی ہے صنعتی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ صو بے کی آمدن کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے اس کی آمدن کو صوبے کے بجٹ میں سالا نہ ترقیا تی پروگرام کےلئے استعمال میں لا یا جا سکتا ہے اس وقت صورت حال یہ ہے کہ چترال میں ریشن کے مقام پر 4میگا واٹ بجلی گھر 2015ءکے سیلاب میں متا ثر ہوا سیلا ب کے بعد نقصا نا ت کا جا ئزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ پا نی کا ٹینک سلا مت ہے سرنگ اور پا ئپ سلا مت ہیں صرف بجلی گھر کی عما رت کے ساتھ اس کے 3ٹر بائین سیلا ب برد ہو چکے ہیں 6مہینے کے اندر اس کو دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے مگر فنڈ دستیاب نہ ہو نے کی وجہ سے 6سال بعد بھی اس کی بحا لی پر کام شروع نہ ہو سکا ملا کنڈ تھری کی بجلی اگر صو بے کے ہاتھ میں آگئی تو فنڈ کی کمی کا مسئلہ حل ہو جا ئے گا اور صو بہ خود کفالت کی منزل کو پا لے گا ۔