پاکستان کی جانب سے افغانستان میں معاہدے اور امن کےلئے مسلسل کوششوں کے باوجود افغان حکام کی الزام تراشیاں جاری ہیں۔افغانستان کی خفیہ ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی کے نائب سربراہ نذر علی واحدی نے الزام عائد کیا ہے کہ طالبان کمانڈروں اور شیڈو گورنروں کو افغانستان میں موسم بہار کی کارروائی کی منصوبہ بندی کرنے ٹاسک ملا ہے۔ ادھر افغان وزارت دفاع اور وزارت داخلہ نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ باغی ملک میں صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کی تیاری کر رہے ہیں۔ جنوب، مغرب اور تمام صوبوں میں ہمیں خطرات ہیں مگر ہم ان خطرات کو کچلنے کےلئے پوری طرح تیار ہیں۔“امریکہ تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کےلئے اپنی بساط بھر مخلصانہ اقدامات کررہا ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے بھی تاجکستان میں افغانستان، پاکستان اور بھارت کے رہنماو¿ں اور دیگر افغان کھلاڑیوں کا افغان امن بارے ہارٹ آف ایشیا اجلاس ہوا لیکن اشرف غنی حکومت کو جیسے جیسے اندازہ ہوتا جارہا ہے کہ اس کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں اور مستقبل کے افغان بندوبست میں انہیں اپنی جگہ نظر نہیں آرہی وہ مایوسی کی وجہ سے پاکستان پر بے بنیاد الزام تراشی کررہی ہے۔بڑے الزامات یہ ہیں کہ افغانستان میں دہشت گردی اور طالبان کی مضبوطی کی بنیادی بیرونی مداخلت ہے اور یہ کہ پاکستان اگر چاہے تو امریکی اتحاد طالبان کے خلاف جنگ جیت سکتا ہے، بین الافغان امن معاہدہ ہونے اور افغانستان کو امن و استحکام کا مرکز بن جانے میں دیر نہیں لگے گی۔ پاکستان پر مداخلت کا الزام اتنا مضحکہ خیز ہے کہ اس پر صفائی دینا وقت کا ضیاع ہے۔ دراصل افغان حکومت بھارت کے اشارے پر پاکستان کو بدنام کرنے اور اسے بیک فٹ پر لے جانے کےلئے یہ من گھڑت اور مضحکہ خیز باتیں کررہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان افغانستان میں بدامنی سے شدید متاثر ہوتا اور وہاں امن سے یہاں امن آتا ہے چنانچہ یہ وہاں امن لانے کےلئے سب سے بڑھ کر کوشاں ہے مگر یہ اکیلے اس کے بس سے باہر ہے۔ پھر افغانستان میں بدامنی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر بھی ہوا۔ اس نے چالیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی۔ اس کی معیشت کو سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہاں انتہاپسندی، بدامنی اور دہشت گردی آئی اور دنیا بھر سے انتہاپسند اکٹھے ہوئے جن سے پاکستان اب تک برسرپیکار ہے۔ بے نظیر بھٹو، بشیر بلور اور مولانا حسن جان سمیت ستر ہزار سول اور فوجی جوان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ مختلف وزراء، پولیس افسران اور مولانا فضل الرحمٰن و قاضی حسین احمد جیسے مذہبی قائدین خود کش حملوں کا نشانہ بنے۔ لیکن پاکستان دہشت گردوں کے سامنے نہ جھکا۔ اس نے مقابلہ کرکے قلیل مدت میں انہیں شکست دی اور دنیا کو محفوظ بنانے میں مدد دی۔پاکستان تو افغان قوم اور پوری دنیا کا محسن ہے جس کی قربانیوں کی قدر کی جانی چاہئے نہ کہ اسے اپنی اور دوسری اقوام کی چشم پوشیوں، غلطیوں، کوتاہیوں، زیادتیوں اور گناہوں کےلئے ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی جائے۔ یہ سوچنا کہ پاکستان طالبان پر حتمی اثر ورسوخ رکھتا ہے خام خیالی ہے۔ پاکستان ابھی تک اپنی سرزمین پر امریکہ طالبان کے مذاکرات نہیں کرواسکا اور پچھلے سال وزیر اعظم عمران خان کو بھی افغان حکومت کے اعتراض کے بعد طالبان وفد سے اپنی طے شدہ ملاقات منسوخ کرنا پڑی تھی۔ اس کے برعکس قطر میں طالبان رہنما رہتے ہیں، ان کا دفتر بھی وہاں ہے، وہاں ہی ان کے امریکہ اور اب افغان حکومت سے مذاکرات بھی ہوئے اور ہورہے ہیں۔افغان حکومت جانتی ہے کہ پاکستان اپنے علاقے میں جتنا ممکن ہے دہشت گردی کے خلاف مورچہ زن ہے اور رہے گا، اپنے رقبے سے افغانستان میں مداخلت اور دراندازی کی اجازت بالکل نہیں دے گا مگر افغان حکومت اور اتحادی ممالک طاقت اور وسائل کے باوجود افغانستان کے اکثر حصے پر ابھی تک اپنی عملداری قائم نہیں کر سکے۔ انہیں یہ بھی پتا ہے کہ پاکستان نے سرحدی درندازی روکنے اور پاک افغان سرحدی علاقے سمیت پورے پاکستانی سرزمین پر جنگجوﺅں کا صفایا کرنے کےلئے بہت کام کیا ہے۔اشرف غنی حکومت کا فائدہ اس میں ہے کہ افغانستان میں بدامنی ہو۔ امن و استحکام والے افغانستان میں انہیں اپنا نقصان نظر آتا ہے اس لیے وہ امن کی کوششوں میں کماحقہ مدد نہیں کررہی ہے اور سٹیٹس کو برقرار رکھنے کےلئے کوشاں ہے۔ چنانچہ وہ بڑی مشکل سے قطر معاہدے کے مطابق طالبان قیدیوں کی رہائی کےلئے تیار ہوئے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را بھی پاکستان کے تعاون سے جاری افغان امن عمل کو ناکام بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ لیکن حیران کن طور پر امریکہ افغانستان کی سرزمین پر بھارت کی پاکستان مخالف سازشوں اور اقدامات سے صرف نظر کررہا ہے۔اگر پاکستان افغانستان کا ہمسایہ ہے تو اس میں پاکستان کا کا کوئی قصور نہیں۔ اور ظاہر ہے پاکستان افغانستان کی سلامتی کا بالکل بھی ذمہ دار نہیں ہے۔ افغانستان ایک الگ ملک ہے۔ اس کی اپنی افواج اور ادارے ہیں۔ اس لئے افغانستان میں امن کے قیام کی اولین ذمہ داری خود افغان حکومت اور افغان عوام کی ہے کہ وہ اس مقصد کیلئے متفقہ طور پر اپنا کردار ادا کریںبین الاقوامی امن فوج بھی افغان حکومت کی مدد کےلئے موجود ہے۔ پاکستان چنانچہ اس کی سلامتی اور حفاظت کا ذمہ دار نہیں۔ اس کے باوجود پاکستان نے پاک افغان سرحد پر درندازی روکنے کےلئے آہنی باڑ لگائی، سرحد پر ہزاروں نگران چوکیاں قائم کیں اور پوری پاکستانی سرزمین سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے کافی محنت کی جبکہ افغان حکومت کے سرکردہ لوگ اپنی طرف سرحد پر نگران چوکیاں تعمیر کرنے کے لیے تیار ہیں نہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے اور نہ ہی سرحد پر باڑ لگانے کےلئے، کیوں کہ اگر پاک افغان سرحد پر باڑ لگ گئی،نگران چوکیاں بن گئیں اور افغان پناہ گزین پاکستان سے نکل گئے تو پھر پاکستان پر دراندازی کا الزام لگانے کا موقع ان کے پاس باقی نہیں رہے گا۔الزامات لگانے کی بجائے افغان حکومت کو چاہئے کہ اپنے ملک میں پاکستان مخالف دہشت گردوں کی حمایت نہ صرف خود ترک کرے بلکہ بھارت کو بھی ان کی پشت پناہی سے روک دے۔ پاکستان پر الزام تراشیاں کرنے کی بجائے افغان پناہ گزینوں کو واپس لے لے، افغانستان کی طرف سرحدی نگرانی کو یقینی بنانے کےلئے چوکیوں کی تعداد بڑھا دے تاکہ اگر کہیں دہشت گرد دراندازی میں کامیاب ہوں تو آپ ان کو فوراً گرفتار کرسکیں اور اپنے خفیہ نظام کو بھی مضبوط کریں تاکہ اگر وہ سرحد پر گرفتاری سے بچ نکلیں تو آپ کے ملک میں ان کےلئے نقل وحمل ناممکن ہو۔