کتنی ویراں ہے گذرگاہِ خیال۔۔۔

وقت پیچھے کی طرف تو نہیں جا رہا ۔ یہ سرپٹ گھوڑے کی طرح جس کی باگیں نہ ہوں ۔ دوڑتا ہوا جانے کہاں پہنچے ۔قصہ خوانی دروازے کی سو سال پہلے کی تصویر نگاہوں سے گزری ۔ میں تو کھو گیا ۔میرا گم ہوجانا اپنے ماضی کے عہد میں تھا۔ میں سو سال پہلے کے اس کابلی دروازے کے باہر پہنچ گیا۔جہاں اکا دکا شہری کھڑے تھے۔ سو سال پہلے کے گزرے ہوئے لوگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔اگرچہ کسی اور نے نہ دیکھا ۔مگر ہم نے دیکھا ۔اپنے پردادا کو دیکھ لیا تھا۔ ہاں یہ وہی تھے۔انھوں نے میرے داد ا کی انگلی پکڑی تھی۔جو پانچ سالہ بچے کی شکل میں وہاں موجود تھے۔مجھے موجودہ زمانے میںماضی کا حال صاف دکھنے لگا۔کابلی دروازے کے باہر تو ویرانی کا ایک منظر تھا۔ سو میں واپس ہو لیا ۔شہر میں گھنٹہ گھر اور کریم پورہ، چوک یادگار،شاہین بازار، بازارِ کلاں، تحصیل گورگھٹری ، گھوڑوں کی ڈگی ، سبز پیر روڈ، لاہوری دروازہ تک چلا گیا۔ وہاں سے پھر واپس ہوا ۔کیونکہ اس دروازے سے باہر لاہور کی طرف جانے والا راستہ سنسان تھا۔ جیسے کابل کی طرف کی راہ کابلی دروازے کے باہر بے آباد تھی۔کابلی دروازے کے اندر سے ہوتا ہوا گلاب خانہ تک پہنچا ۔پھر ہوتے ہوئے ڈبگری دروازے تک چلا گیا۔ مگر باہر نہ گیا۔شہر کے اندر ہی گھومتا پھرتا رہا۔ سب کچھ دیکھا ۔ایک سکون تھا۔ خاموشی کاایک عالم تھا۔ وہ ہا¶ ہو نہ تھی جو ہونی چاہئے۔کیونکہ شہر میں لے دے کر کچھ ہی بڑے لوگ رہتے تھے۔ہائے کیا زمانہ تھا جب ہمارے بزرگ یہاں کے رہائشی تھے ۔ جب سب کچھ تھا ۔ایک رونق تھی۔ ماضی کس کو اچھا نہیں لگتا ۔ مجھے اچھا لگا کہ میں نئے زمانے کی چکاچوند سے آنکھیں خیرہ کئے اسی ماضی میں یہاں ان سڑکوں پر شہر کے اندرون گھومتا پھررہا تھا۔ہم جیسوںکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو کھوئے شہر کی یاد کی بیماری ہے ۔ غلط تو نہیں۔ وہ جو یہاںپیدا ہوئے ۔ اپنے شہر میں کھیلے کودے بڑے ہوئے ۔مگر اب اپنے بچپن کے شہرکو تلاش کرتے ہیں۔ پھر شہر خودان کی تلاش میں ہے ۔” دل ان کو ڈھونڈتا ہے ہم دل کو ڈھونڈتے ہیں“۔ بھٹکے ہوئے مسافر منزل کو ڈھونڈتے ہیں“۔میں پھر کابلی دروازے تک واپس آیا ۔ کیونکہ یہی تو داخلی دروازہ ہے جہاں اندرآئیںتوگھرو ںمیں مائیں اپنے بچوں کو کہانیاں سنا کر رات کو اپنی گود میں سلا دیتی تھیں۔ پھر یہاں دن کی روشنی میں آنے والے مسافروں کو بڑوں کو یہاں کے قصہ خوان چھوٹی موٹی کہانیاں سنا کر تفریح پہنچاتے تھے۔ قصہ خوانی بازار کے اندر چوک ناصر خان تک چلا آیا۔ وہ سارے جو اب ہم میں نہیں ہیں۔ وہاں ہمارے محلے میں دکانیں کررہے تھے گھوم پھر رہے تھے۔کسی سے بات نہ کرسکا کہ میں تو آواز دیتا مگر میری آواز کسی کے کانوں تک نہیں پہنچتی تھی۔ بلکہ میں نے تو کتنوں کو پہچان کر ہمارے گھر سے نکلتے تھے ہاتھ سے پکڑ کر روکابھی مگر کسی کو ہمارے ٹچ کرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ معلوم نہیں کہ وہ روحوں کی دنیا تھی یا پھر یہ روحوں کاماحول تھا۔ جہاں جسم اور روح الگ الگ سجے سجا©ئے گھوم رہے تھے۔ما©ضی کے خاندانی واقعات کو آج میں نے اپنی آنکھوںسے دیکھا تھا اور ان کا چشم دید گواہ بن گیا تھا۔مجھے معلوم تھا کہ میںجس زمانے آگیا ہو ں اس کے بعد کون سا زمانہ آنے والا ہے ۔جب ان میں ایک بھی نہیں رہے گا۔ ان کی یاد رہ جائے گی۔ ہائے اپنے پشاور کی پرانی یادیں تو اب خاک ہوئیں۔ وہ گذرازمانہ واپس پیچھے کی طرف گردشِ ایام کے ساتھ موڑ نہیں کاٹے گا۔ مگر کیا ہوا جو میں آج کسی بہانے سو سال پیچھے کاسفر کر کے کابلی دروازے کے آس پاس گھوم رہاتھا۔جب میں ہوش میںآیا اور اپنے آپ کو نہیں پایا جب اپنے آپ کو پالیا ۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں کیوں پیچھے کی طرف لوٹ گیا تھا۔ اگر واپس نہ آسکتا تو پھر کیا ہوتا۔ اس ماضی میں گم ہوجاتا ۔ میں ان گھومتی پھرتی شبیہوں کو پہچان لیتا او رہاتھ ملاتا مگر وہ مجھے جاننا تو چھوڑ مجھے دیکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ اگر میں وہاں کا ہو جاتا تو اپنے ساتھ بہت برا کرتا۔شکر ہے کہ میں نے اپنے آپ کو تو پہچانا اور اپنے موجودہ اور جدیدزمانے میں آج کی دنیا میں واپس آگیا۔ مگر جب سے واپس آیاہوں ایک سوچ کے نرغے میں ہوں۔سوچ رہاہوں کہ آ ج اگر میں سوسال پہلے کی کابلی دروازے کی تصویر دیکھ کرحیران ہوا اور اس میں دروازے میں داخل ہو کر شہر کی سیر کر آیا۔ مگر آج دو ہراز اکیس میں جو خیبر بازار اور اس سے آگے جاتے جا¶ ۔یہ جو نیا زمانہ ہے نئے صبح شام ہیں۔آج کی جو تصاویر موبا©ئل کیمرے سے کھینچی جا رہی ہیں ۔ کل آنے والے زمانے میں سوسال کے بعد اکیس سو اکیس میں آج کی تصویر بھی ایک ویران گذرگا ہ کے طور پر پہچانی جائے گی۔جیسے مجھ کو سو سال ماضی کی تصویر ویران گذر گاہِ خیال محسوس ہوتی ہے ۔کل کو ہمارے سو سال بعد ہماری خود کی کابلی دروازے کی تصویرجس کو ہم انتہائی رش والا مقام کہتے ہیں جانے کس قدر ویران سمجھی جائے گی۔ ہم جس موجود پر ناز کر تے ہیں وہ حال جب مستقبل میں بدل جائے گا تو اس وقت کے لوگ اس کو ماضی کہیں گے۔ اس گیٹ کو ماضی کی ایک یادگار کے طور پر ویرانی کی ایک تصویر سمجھ کر پہچانا جائے گا۔