قومی کرکٹ ٹیم نے دور ہ جنوبی افریقہ میں نئی تاریخ رقم کر دی ہے اور کئی بلے بازوں نے یادگار کھیل پیش کرتے ہوئے ریکارڈ بنائے، جن میں فخر زمان قابل ذکر ہے۔ قومی ٹیم کی اس کارکردگی کو کئی حوالوں سے اہمیت حاصل ہے ۔ ایسے حالات میں کہ جب ونڈے سیزیز کو ورلڈ کپ سپر لیگ کا درجہ حاصل ہے تو ہر میچ جیتنے اور ہارنے پر آنے والے ورلڈ کپ میں ٹیم کی پوزیشن متاثر ہوتی ہے ۔اس وقت پاکستان بہترین پوزیشن پر فائز ہے اور اس کی وجہ جنوبی افریقہ کو ونڈے سیریز میں شکست فاش دینا ہے۔ اس سے پہلے قومی ٹیم نے 2013ءمیں جنوبی افریقہ کو اسی کے میدان پر تین ایک روزہ میچوں کی سیریز میں 1-2 سے شکست دی تھی۔ اس کے علاوہ ان دونوں ٹیموں کے درمیان 5 میچوں پر مشتمل 8 ایک روزہ سیریز منعقد ہوئیں اور تمام میں جنوبی افریقہ کو کامیابی نصیب ہوئی۔ 2013ءاور موجودہ کامیابی میں ایک بات اہم ضرور ہے کہ اس وقت مصباح الحق قومی ٹیم کے کپتان تھے اور اس بار وہ بطور کوچ ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔اب یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کامیابی کی وجوہات کیا ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہم اس سیریز میں قومی ٹیم کی کامیابی کی وجوہات کو ڈھونڈیں تو سب سے خاص بات فخر زمان کی فارم میں واپسی ہے۔ فخر زمان 2017ء میں کھیلی جانے والی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں روایتی حریف بھارت کے خلاف اہم ترین سنچری سکور کرکے ہیرو بنے تھے۔ پھر اگلے سال زمبابوے کے خلاف پاکستان کی جانب سے ڈبل سنچری بنانے والے پہلے بیٹسمین بھی بنے۔ اس کے بعد ایک روزہ کرکٹ میں تیز ترین ایک ہزار مکمل کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا لیکن اس کے بعد ان کی کارکردگی خاطر خواہ نہیں رہی اور کئی طرف سے آوازیں اٹھنے لگی تھیں کہ فخر الزمان کو زیادہ مواقع دینے کی ضرورت نہیں ۔ تاہم اب فخر زمان نے یہ سب کچھ غلط ثابت کردیا ہے اور وہ جس فار م میں ہیںاس کے آگے ریکارڈپر ریکارڈ سرنگوں ہونے لگے ہیں۔ اس سے قبل ورلڈکپ 2019ءمیں وہ ب±ری طرح ناکام ہوئے اور تب سے اب تک قومی ٹیم نے ایک روزہ کرکٹ بھی زیادہ نہیں کھیلی۔ پھر جب موجودہ سیریز کے پہلے میچ میں فخر ایک بار پھر ناکام ہوئے تو دوبارہ انہیں باہر کرنے کی آوازیں آنے لگیں، لیکن دوسرے میچ میں 342 رنز کے تعاقب میں 120 رنز پر آدھی ٹیم پویلین لوٹ گئی اور ہر کسی نے میچ جیتنے کی امیدیں دل سے نکال دیں، تب فخر زمان نے 193 رنز پر مشتمل یادگاراننگ کھیلی۔اگرچہ فخر اپنی اس یادگار اننگ کی بدولت پاکستان کو میچ تو نہ جتوا سکے لیکن ہدف کے تعاقب میں کھیلی گئی سب سے بڑی اننگ کھیلنے کا اعزاز ضرور حاصل کرلیا۔ اس دن کوئی ایک بھی بیٹسمین فخر کا ساتھ دیتا تو شاید یہ میچ پاکستان کے نام رہتا۔ فخر نے اسی اننگ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تیسرے ون ڈے میں ایک اور سنچری بنا کر واضح کردیا کہ دوسرے ون ڈے میں سنچری محض اتفاق نہیںتھا۔ اس بار فخر کا ساتھ کپتان بابر اعظم اور پھر پاکستانی باو¿لرز نے دیا اور یوں فتح پاکستان کے نام رہی۔ اس طرححسن علی جو چیمپئنز ٹرافی اور اس کے بعد ایک روزہ کرکٹ کے درمیانی اوورز میں قومی ٹیم کےلئے اہم وکٹیں حاصل کرتے رہے تھے، کافی عرصے سے آو¿ٹ آف فارم تھے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز میں ٹیسٹ اور ٹی20 سیریز میں تو عمدہ واپسی کرچکے ہیںاور اب ان کی بیٹنگ بھی کافی نکھر چکی ہے ۔ وہ جس طرح جارحانہ انداز میں بیٹنگ کرتے ہیں ا س سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ ایک باصلاحیت آل راﺅنڈر بننے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔اب اگر بات کی جائے جنوبی افریقہ کی ٹیم کی تویہ ٹھیک ہے کہ ورلڈکپ 2019ءمیں جنوبی افریقہ کی کارکردگی کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی، لیکن جنوبی افریقہ اپنے گھر میں ہمیشہ ہی ایک مختلف ٹیم رہی ہے، خاص طور پر باہمی سیریز کے دوران۔ پچھلے سال اسی کمزور جنوبی افریقی ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف ایک روزہ سیریز 1-1 سے برابر کی تھی اور آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کو 0-3 سے شکست دی تھی۔ایک اور اہم بات یہ کہ گزشتہ 10 سالوں میں قومی ٹیم سرِفہرست 5 ٹیموں کے خلاف صرف 2 مرتبہ ایک روزہ سیریز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے۔ جن میں سے ایک جنوبی افریقہ کے خلاف تھی جس کا اوپر ذکر ہوچکا اور دوسری بھارت کے خلاف تھی۔ بھارت کے خلاف یہ سیریز 2012ءکے اختتام پر شروع ہوئی تھی۔ 3 میچوں کی سیریز میں قومی ٹیم نے ابتدائی دونوں میچ جیت کر سیریز اپنے نام کرلی تھی، جبکہ تیسرے میچ میں بھارتی ٹیم کامیاب رہی۔اگرچہ اس پورے عرصے میں قومی ٹیم سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور دیگر ٹیموں کو پچھارتی رہی ہے، مگر بڑی ٹیموں کے خلاف نہ ان کے گھر پر کوئی کامیابی ملی اور نہ میزبانی کرتے ہوئے۔قومی ٹیم کی کارکردگی اگر چہ اچھی اور ونڈے سیریز کواپنے نام کرنے میں کامیاب رہی تاہم پاکستان کی اس کامیابی کے باوجود مڈل آرڈر کی ناکامی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتااگر باو¿لنگ کا ذکر کریں تو بیٹنگ کیلئے سازگار وکٹوں پر پاکستانی باو¿لرز کی کارکردگی کو ب±را نہیں کہا جاسکے گا۔ ہاں، پہلے میچ میں جنوبی افریقہ کی ابتدائی 4 وکٹیں جب محض 55 رنز پر گر گئیں تو لگا کہ اب ان کو جلدی روک لیا جائےگا‘ مگر ایسا نہیں ہوسکا اور میزبان 273 رنز تک پہنچ گئے۔اس سیریز میں بابر اعظم ایک بار پھر بہترین فارم میں نظر آئے جو پاکستان کی کامیابیوں کےلئے ضروری بھی ہے۔ بابر اعظم جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز میں ٹی20 اور ٹیسٹ میچوں میں اپنے معمول کے ردھم سے بہت د±ور نظر آئے تھے لیکن جنوبی افریقہ میں پہلے ہی ون ڈے میں ایک خوبصورت سنچری کے ذریعےبابر نے شاندار واپسی کی۔اب دونوں ٹیموں کے درمیان 4 ٹی20 میچوں پر مشتمل سیریز کھیلی جائے گی جس میں امید یہی ہے کہ اسی طرح بہترین کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔