رسوم ورواج کے قیدی۔۔۔

روایت سے بغاوت کرنا اتناآسان نہیں ہوتا۔ بندہ اکیلا رہ جاتاہے۔ ہمارے ہاں روایات ہی تو ہیں ۔ہر معاشرہ روایات رسوم و رواج کے سہارے چلتا ہے۔ وہ کون سی معاشرت ہے جس میں روایت سے انحراف ہو۔ بلکہ یوں کہئے روایات سے الگ ہوا نہیں جا سکتا۔ یہ رسمیں ہماری جڑوں میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ ہماری بنیادیں اسی سے استوار ہیں۔ اس موضوع پر سوچیں اور سمجھیں جانیں ۔معلوم ہوگا کہ ہم تو رسموں رواجوں کا مجموعہ ہیں ۔بلکہ یہی ہماری شناخت بھی ہے۔ خواہ ہم سوچ کے لحاظ سے الگ قوم ہوں یا جغرافیہ کے حوالے سے الگ قومیت اور شہریت ہو ۔ جو بھی ہو ہم اس قید سے باہر نہیں جاسکتے۔ جو ان سے ہٹنے کی کوشش کرے گا ۔وہ تنِ تنہا اس معاشرے کے مقابلے کو نکل کھڑا ہو گا ۔مگر جتنا بھی زورآور ہو پہلوان ہو وہ دوسرے کو تو بچھاڑ دے گا مگر روایت کے آگے گھٹنے ٹیک دے گا۔ہم تو رسوم ورواج کے قیدی ہیں۔خواہ قبائل ہوں یا شہری ہوں اپنے ان روایات کے بنائے جال میں مچھلی کی طرح تڑپیں گے ۔مگر ان کو کبھی رہائی نہیں ملے گی۔ ہاں جو ہر حالت میں اس قید سے رہائی چاہتا ہے وہ جنگل میںچلا جائے یا اپنے لئے کوئی نئی دنیا بسا لے ۔ کیونکہ یہاں رہنا ہے تو معاشرے کی جکڑ بندیوں کو اپنے اوپر طاری کرنا ہوگا۔جب دو آدمی مل کر رہتے ہیں تو ایک دوسرے کا پاس کرتے ہیں ۔ جب لاکھوں لوگ ایک جگہ رہتے ہوں وہ بھی ایک دوسرے کا لحاظ کریں گے۔ خاندان کو لے لیں۔ جو خاندانی روایت پر نہیں چلے گا اس کو خاندان کے اراکین ترک کر دیں گے۔ پھر وہ چیخے گا۔ مگر اس کی کوئی نہیں سنے گا۔ اگر سنے گا تواس کا دل نرم نہیںہوگا کہ اس کی بغاوت اور انحراف درست ہے ۔اس بغاوت کرنے والے کے ساتھ کمیونٹی کٹ آف کر دے گی۔بڑے طورسم خان دیکھے کہ شادی بیاہ سے قبل ہی حکم جاری کر دیا او رگھر گھر اطلاع پہنچ گئی کہ پھولوں کے ہار کوئی نہیں لائے گا۔ اس حکم کے جاری کرنے کے باوجود ان کو کینٹھے پہنا ئے گئے ۔ اس نے انکار کیا مگر ہر آدمی کے سامنے انکار بھی تو نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایک شادی میں انکار کر دیا تو لوگوں نے اس کے پیچھے خوب باتیں بنائیں اس کو چھوڑ دیا اس سے قطع تعلق کر لیا ۔ پھر آخر کار اس بندے کو جو روایات کا باغی تھا۔ جب اپنی شناخت کی ضرورت پیش آئی تو اس نے انھیں لوگوں کو پھر سے دعوت دی اور ان کے پھولوں کے ہار گلے میں پہننا قبول کئے۔یہ جو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں رسوم و رواج ہیں ان میں ہماری معاشرتی بقا ہے ۔اس میں ہمارا اپنا فائدہ ہے ۔ اس سے بغاوت کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کیونکہ انسان انسان کا دارو ہے ۔ایک کو دوسرے کی ضرورت پڑتی ہے ۔سو ہم نے کسی کے اس پروگرام میں اگر نہیں جانا جو فضول رسوم پر مبنی ہے تو سامنے والا اس حد تک متنفر ہو سکتا ہے کہ کل کو دوسرے کی میت پر بھی نہ جائے۔سو کوئی بھی معاملہ ہو کوئی مسئلہ ہو درمیان کا راستہ اچھا راستہ ہوتا ہے۔ موقع محل دیکھ کر ان کی روایات کا ساتھ دیں۔ اگر انسان کے رہن سہن سے روایات اوررسمیں رواج نکال دیں تو ایک مشین بچ جاتی ہے جوانسان نہیں کہلائی جا سکتی ۔ غرض یہ ہے قوم کی حیثیت سے اور سوچ کو سامنے رکھ کر معاشرے کے ہر گروہ کی ذہنیت دوسرے گروپ سے مختلف ہوتی ہے ۔ جس کو ہم رسم و رواج قرار دیتے ہیں۔شادی تو چند گھنٹوں کا کھیل ہے ۔ مگر اس میں جو رسمیں کی جاتی ہیں ۔ اس کی وجہ سے بیاہ طویل ہو جاتے ہیں۔ کہیں کون سی رسم ہے اور کہاں کون سا دستور ہے کہ جس کو فالو کرنا پڑتا ہے۔ وگرنہ توبندہ اکیلا فتح یاب نہیں ہو سکتا۔ میں نے بہت پہلے روایات سے بغاوت کرنا چاہی تھی۔اپنی شادی پر بہت سی رسوم کو ترک کرنے کا اعلان کر دیاتھا۔ مگر مجھے کہنے میں باک نہیں کہ میں ہار گیا تھا۔پھر ہارا بھی بہت بری طرح تھا۔ میں اکیلا سب لوگوں کو منع تو کیا قائل بھی نہ کر سکا۔ پھر لوگوں نے جانتے بوجھتے روایات کے حامی بن کر آپس میں ایکا کر لیا تھا۔ مجھے پسپا ہونا پڑا ۔کیونکہ سب سے پہلے میرے گھر والے خود میرے ساتھ نہیں دے رہے تھے۔مگر آہستہ آہستہ سمجھ میں آیا کہ روایت سے انحراف نہیں کیا جا سکتا ۔یہ رسوم و تو ہر فیلڈ میں ہیں ۔خواہ کوئی ادارہ ہو کوئی مکتبہ فکر ہو کوئی خاندان ہو ان کے رول اصول اور رسوم ہی ان کا اپنا آئین ہوتا ہے جس پر ہر آدمی نے عمل کرناہوتاہے۔ ورنہ تو اس کے پیچھے بہت باتیں بنتی ہیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک آدمی کھلم کھلا رسوم کے خلاف بولتا ہے تو وہ جب مخالفت میں شکست کھا جاتا ہے تو اس وقت اس کی شکل دیکھنے لائق ہوتی ہے ۔مگر منافقت نہیں کرناچاہےے۔ اگر ایک معاملے میں روایات کی خلاف ورزی ہے تو ہر معاملے میں اس کے خلاف چلنا چاہےے۔ ایسا نہیں کہ ایک معاملے میں مخالفت کی راہ چلے اور اپنی مرضی کی اوردوسرے تیسرے معاملات میں لوگوں او رگھر والوں کی مرضی پر چلے۔