مسئلہ عام آدمی کا ہے۔۔۔۔

عام آدمی کا تو کھانا پینا سوکھ گیا ہے ۔ آدھی کھا¶ آدھی شام کے لئے رکھو۔ وگرنہ پوری کھا لو تو شام کو بھوکے رہو گے۔ کروڑوں لوگ رات کو بھوکے سوتے ہیں۔ایک وقت کی ہے اور ایک وقت کی نہیں ۔بجلی کے بل دیں گے یا گیس کی قلت کے دوران میں آئے بھاری بھرکم بلوں کو لے جا کر کسٹمر شاپ پر جمع کروائیں گے۔ بجلی جہاں نہیںوہاں کے لئے پیغام ہے کہ بجلی اور بھی مہنگی ہو رہی ہے۔ اب اگر یہ حال ہے تو ایک آدھ مہینے بعد اور کیا صورت ہوگی۔غم کی شدت سے تو ہمارے چہرے بگڑے جا رہے ہیں۔ زردی مائل کملائے ہوئے پھولوں کی طرح ۔ شاخ سی ابھی گرے اور ابھی گرے۔زندگی تو ویسے بھی دشوار ہے مگر ان دنوں تو زیست کے روز وشب تلخ تر ہوتے جا رہے ہیں۔ سفید پوش کو اپنا بھرم قائم رکھنا بہت مشکل ہورہا ہے ۔اس کو ڈر ہے کہ اب اس کے چٹے لباس پر کہیں داغ نہ پڑیں۔ اکثر کا حال ایک ہے ۔کوئی اگر نیکی کو دامن میں لئے گھومتا ہے سو گھومتا رہے ۔ابھی روزے نہیں آئے ۔مگر حال مہنگائی کا برا ہو چلا ہے ۔ ہر چیز نے اپنے پر پھیلا دیئے ہیں ۔ جب روزوں کا چاند نکل آئے گا تو راتوں رات مہنگا ئی کا گراف چاند تک پہنچے کی کوشش کرنے میں اگر ناکام ہوگا تو کچھ کامیاب ضرور ہوگا۔آٹا ہے یا چینی ہے بس اندر باہر واویلا مچا ہوا ہے ۔رونے دھونے ہیں ۔رونا زیادہ ہے اور دھونا کم ہے ۔ کیونکہ ہر چیز گراں سے گراں ہے ۔ہم لوگ ہیں کہ پیچھے کو جا رہے ہیں ۔بلکہ نیچے کو جا رہے ہیں۔ اور وہ لوگ ہیں کہ آگے کو ترقی کی راہ پر دوڑ دوڑ کر خود پہلی کے چاند تک پہنچنے کو اوپر جاتے ہیں۔چاند تو ان کےلئے پیچھے چھوڑ دینے والی دھول ہے ۔ کیونکہ قافلے جب رواں ہوتے ہیں تو گرد و غبار کو پیچھے چھوڑ کر آگے جاتے ہیں ۔وہ تو مریخ پر بستیاں بسانے نکلے ہیں ۔پھر چاند پر کالونیاں بنانے کی تیاریاں ہیں۔ وہ لوگ اوپر جاتے پڑے ہیں ۔یوٹیلٹی سٹور سے ہر آدمی تو چیزیں نہیں خریدتا ۔ یہ کیا کہ اس کارپوریشن کے نرخ اور ہیں اور بازار میں عام دکانوں پر اشیاءکے نرخ اور ہیں ۔کیا ایسا ممکن نہیں کہ اشیاءکے نرخ سرکاری اور بازار میں موجود تمام دکانوں پر یکساں ہو اگر حکومت چاہے تو ایسا ممکن بھی ہے تاہم اس کے لئے خلوص نیت سے کوشش شرط ہے اب سرکاری سٹورز پر اگر نرخ کم کئے گئے ہیں تو یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر جگہ تو یہ سرکاری دکانیں موجود نہیں ۔ پھرچار پہیہ گاڑیوں میں دکانیں بنا کر سودا بیچنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بھوک سے تلملائے ہوئے عوام کسی بھرے پُرے ٹرک کو بھی تو نہیں چھوڑیں گے۔ کہیں موقع ملا تو کسی موڑ پر لوٹ لیں گے۔اب یہ حال ہے تو کیا حال ہے ۔ ہمارا ماضی توہے ۔ مگر حال نہیں ۔ پھر مستقبل کے بارے میں انتہائی تشویش ناک خیالات ہیں جو کسی وقت بھی پُر امید ہونے کے باوجود دم توڑ سکتے ہیں۔ٹیکس اگر لگا ہے تو ٹیکس زیادہ لگے گا۔ بجلی کے نرخوں میں اضافہ سے ہزاروں ارب روپے حاصل ہوں گے ۔ مرغی ہے تو عام آدمی کے بس سے باہر ہے ۔ مگر اختیاری ہے ۔اگر نہ لیں تو نہ لیں ۔مگر آٹا تو لینا ہے ۔من کے پیچھے سینکڑوں روپوں کی اضافی رقم دینا ہے ۔وگرنہ ہونٹ سی کر چپ بیٹھنا ہے نہ دل سے آہ نکلے نہ لب سے صدا نکلے ۔” نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے ۔ مگر یہ بات بڑی دور جا نکلتی ہے “۔ دانت ہیں کھانے کےلئے ہیں ۔ہاتھی کے دانت تو نہیں کہ دو لمبے سفید اور دکھانے کےلئے ہیں ۔ انسان کے دانت ہیں غریب کے دانت ہیں ۔مگر کیا کھائیں ۔ جانوروں کی اس لئے گذر جاتی ہے کہ وہ اچھا برا کہیں نہ کہیں سے دانتوں کے ساتھ اٹھا لیتے ہیں۔ مگرانسان تو صاف کھاتا ہے اور صاف پانی پیتا ہے ۔جانوروں کو ماٹی ملا پانی پینے سے کچھ نہیں ہوتا ۔نالی سے پانی پی کر بھی وہ جیتے ہیں ۔ڈھیروں پر سے پھینکی ضائع خراب خوراک کھا لیں گے ۔مگرانسان تو صاف ستھری خوراک نہ کھائے تو اس کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑے گا۔ہمارے ہاں تو اصل مسئلہ عام آدمی کا ہے ۔ اس کو تو اول اپنے بچوں کےلئے خوراک کا بندوبست کرنا ہے ۔ اب اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ حالات بہت مایوس کن ہیں بلکہ یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوشش کی جائے تو یہ تمام مسائل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوں گے مگر اس سمت میں کوششوں کی ضرورت ہے ۔حال ہی میں مجسٹریسی نظام کی بحالی کی نوید سنائی گئی ہے شاید اس سے کوئی راستہ نکل آئے، کہ مقامی سطح پر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا یہی موثر طریقہ تھا ۔گرانفروشوں کو موقع پر جرمانے کرکے ہی ان کے رویے کو درست کیا جاسکتا ہے مگر یہ سب کچھ اگر تیزی سے کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔خاص کر رمضان المبارک کے دوران اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو قابو میں رکھنا ازحد ضروری ہے تاکہ اس دوران ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کو عوام کی چمڑی ادھیڑنے سے روکا جا سکے۔