سامنے مغرب کی سمت طورخم کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ سردیاں ہوں تو ان پہاڑوں کی چوٹیوں نے شاید ٹھنڈ کی وجہ سے اپنے اوپر سفید چادریں تان رکھی ہوتی ہیں ۔یہ منظر تو پشاور شہر میں بھی گھروں کی چھتوں پر سے دکھائی دیتا ہے ۔پشاور کی اس وادی میں سینکڑوں گا¶ں ہیں۔جہاں اس دلکش نظارے سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ ان دیہات میں ایک کشادگی ایک وسعت ہے۔یہاں کے مکینوں کے دلوں میں بھی اسی طرح کی اوپن ایئر فضا ہے۔ جو ہر ایک کو گلے لگا لیتے ہیں ۔ یہاں کے پانی خالص ہیں ۔ جس میں کوئی ملاوٹ نہیں ۔نہ تو کہیں گلی کے سیمنٹ کے فرش کے ساتھ گذری ہوئی پائپ لائن ہے جو نیچے زیرِ زمین گٹر میں سے ہو کر آئی ہے ۔جس کا گندگی ملا پانی شہریو ںکو انجانے میں پینا پڑتا ہے۔ان کھلی اور قدرتی فضا میں جہاں گائے بھینسوں کو گھومنے پھرنے میں آزادی حاصل ہے۔ جہاں ان کےلئے راستوں کی بندش نہیں ہے۔ وہاں یہ دودھ بھی خوب دیتی ہیں ۔ جس سے مکھن اصلی گھی اور دوسری چیزیں وافر ملتی ہیں ۔روسو ایک مفکر تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ آ¶ بھائیو شہر کو چھوڑ کر گا¶ں کی فضا میں جاتے ہیں۔ جہاں فطرت سانس لیتی ہوئی صاف دکھائی دیتی ہے ۔شہر میں تو کچھ بھی نہیں۔ آدمی شہر میں شہری مجبوریوں کا شکار ہو جاتا ہے ۔جہاں کوئی دودھ میں پانی نہیں ڈالتا ۔جہاں تیس فٹ نیچے سے موٹے پائپ میں سے ہو کر آنے والا صاف ستھرا پانی صحت کے لئے کتنا مفید ہے۔اگر اپنے کھیت میں سے گندم لی تو سامنے والے کو دےکر اس سے چاول لے لئے۔ یہاں تو اپنی اپنی فصلیں ہیں اور اپنے اپنے دل و دماغ ہیں۔ ان فصلوں کے نرخ شہر والوںکےلئے تو ہیں مگر اپنوں کےلئے محبت کے دوبول ان گندم اور چاولوں کے حصول کےلئے کافی ہیں ۔بجلی نہیں تو کیا ہوا۔ یہاں کے اونچے لمبے درختوں کی زمین کو جھک کر واپس آئی ہوئی شاخوں کے درمیان کی چھا¶ں ہی کافی ہے۔ جس کی ٹھنڈ ک میں چارپائیاں بچھا کر سو جاتے ہیں ۔درختوں کی شاخیں شہر کی دھواں دار فضا کی آلودگی سے ہٹ کران کو نئی سی ہوا دیتی ہیں ۔ ٹھنڈی ٹھار ہوا۔ پشاور کے شمال جنوب میں بھی یہی سلسلہ ہے ۔ جہاں کی عطر والی ہوا میں زندگی کے دن بہت آسان گذرتے ہیں۔ پشاور پہاڑوں کے درمیان میں گھرا ہوا ایک مقام جو وادی پشاور کہلاتا ہے تو درست ہے ۔یہاں سبزیوں کی بھی بہتات ہے اور کوئی پریشانی نہیں کہ یہ کتنی مہنگی ہے ۔ اپنی فصلیں اوراپنی مرضی ہے ۔جوبویا وہ کاٹا اور کاٹ کر پکایا کھایا اور مزے سے زندگی کاایک دن کٹ گیا۔ شہر کی مہنگائی کی فضا کا زہر یہاں تک پہنچتا تو ہے مگر اتنی جلدی یہاں کی فضا کی رگوں میں سرایت نہیں کرتا جتنا کہ شہر میں آن فان میں زندگی کو زہرناک بنا دیتا ہے۔شہر میں تو محلے میں کوئی انتقال کر جائے تو کسی کو کسی کی پروا ہی نہیں ہوتی۔ مگر یہاں تو کسی کا بکری کا بچہ بھی بیمار پڑ جائے تو اس کےلئے سارے اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔شہر کے قبرستانوں میں سے بزرگوں کی قبریں مٹا کروہاں نئی قبریں بنا دی جاتی ہیں۔ مگرگا¶ں میں تو ہر قبر کے بارے میں بزرگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ تین نسلوں پہلے یہ ہمارے کس بزرگ کی قبر ہے۔ شہر وں میں تو ہمارے قبرستان تک ہماری تہذیب کی طرح مٹتے چلے جا رہے ہیں ۔