نیشنل کما نڈ اینڈ کورونا آپریشن سنٹر کے جا ری کر دہ اعداد شمار کے مطا بق ملک میں کورونا مر ض روز بروز بڑ ھ رہا ہے پشاور میں کورونا کے مثبت کیسوں کی شرح 20فیصد ہو گئی لا ہور میں 22فیصد کو رونا مثبت کیسز آگئے دیگر شہروں میں یہ شرح 12فیصد سے 18فیصد تک ہے ڈاکٹر وں کا کہنا ہے کہ کورونا کی مو جو دہ لہر پہلے کے مقا بلے میں زیا دہ خطر نا ک ہے اس لہر میں بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں مریضوں کو رکھنے کی گنجائش ختم ہو گئی ہے ملک کے کسی بھی صو بے کے کسی بھی ضلع میں کوئی قرنطینہ مر کز نہیں بنا یا گیا مرض کا حملہ جتنا شدید ہے حکومت اور عوام کا رویہ اس سے بڑھ کر بے احتیا طی کی طرف ما ئل ہے ہفتہ اور اتوار کے دو دنوں کا محدود لا ک ڈاﺅن نا کا م ہوا ہے اس ادھورے لا ک ڈاﺅن کا خا طر خواہ نتیجہ بر آمد نہیں ہو رہا ہے اس لئے این سی او سی کی سفا رشات کی رو شنی میں حکومت کو جلد یا بدیر مکمل لا ک ڈاﺅن کی طرف جا نا پڑ ے گا مر ض پر قا بو پا نے کا یہ واحد راستہ اور ذریعہ ہے دوسرا کوئی راستہ یا ذریعہ نہیں نومبر 2019میں چین کے شہر ووہان سے نکلنے والے مر ض کاعلاج بھی چینی قیادت کے اختیار کئے طریقے پر ہو گا اپریل 2021کے بقیہ دو ہفتوں کےلئے ہمارے سامنے دو مسائل ہیں پہلا مسئلہ ویکسین کا ہے ویکسین لگا نے کی رفتار بہت سست ہے اسی رفتار سے یہ عمل جاری رہا ہے تو اس میں چار سال لگ سکتے ہیں دوسرا مسئلہ فوری طور پر رمضا ن المبا رک میں عوام کا بازاروں میں غیر ضروری رش لگا نا ہے چین کی حکومت نے کورونا وائر س کو مکمل لا ک ڈاﺅن کے ذریعے ملک کے دوسرے حصو ں میں پھیلنے سے روک دیا البتہ چین سے با ہر جانے والوں نے وائرس دوسرے ملکوں میں پہنچا دیا اور یوں ایک ملک سے ہوتا ہوا یہ وائرس دوسرے ملک پہنچ کر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ امریکہ اور برازیل میں سب سے زیا دہ نقصان ہوا پا کستان میں حکومت نے مارچ 2020ءمیں لاک ڈاﺅن کیا ، بین الاقوامی پرواز وں پر پا بندی لگا ئی ، بین الصوبائی ٹرانسپورٹ کو بند کر دیا بازاروں کو بند کردیا اور مسا جد کےلئے ممکنہ عملی تدا بیر کا نفاذ کیا اس طرح کورونا وائرس پر قابو پا لیا گیا اضلا ع کی سطح پر سکو لوں اور کا لجوں میں قرنطینہ مراکز قائم کئے گئے بڑے شہروں سے دیہات کا سفر کرنے والوں کےلئے 14دنوں کا قرنطینہ لا زمی قرار دیا گیا یہ کم از کم معیا ر کے احتیا طی اقدامات تھے جنوری 2021ءمیں کورونا کی تیسری لہر آنے کے بعد ان جیسے سخت اقدامات کی ضرورت تھی ۔کونسل آف کا من انٹر سٹ (سی سی آئی ) کی میٹنگ میں دو صو بوں نے لا ک ڈاﺅن کا مشورہ دیا وفاق اور دو صو بے اس خیال سے متفق نہیں تھے مسئلہ یہ ہے کہ لا ک ڈاﺅن میں جتنی دیر ہو گی ملک اور قوم کا اتنا ہی نقصان ہو گا احتیاط کا تقا ضا یہ نہیں کہ عوام احتیا ط کریں احتیاط کا تقا ضا یہ ہے کہ حکومت لا ک ڈاﺅن کر ے اور عوام حکومت کے ساتھ تعا ون کریں ایک طبقہ کہتا ہے کہ لاک ڈاﺅن سے ہماری معیشت کو نقصان ہو گا دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ ہماری کوئی معیشت نہیں روز مر ہ دیہا ڑی پر گزارہ ہے لاک ڈاﺅن ہوا تو ہم بھوک سے مر جائیںگے حکومت کا یہ کا م ہے کہ دو نوںطبقوں کے تحفظات کو مد نظر رکھتے ہوئے لا ک ڈاﺅن کرے اس لاک ڈاﺅن کا ما ڈل چین سے مل سکتا ہے ایران سے بھی مل سکتا ہے عرب مما لک سے بھی مل سکتا ہے۔ما ضی میں ایسے لا ک ڈاﺅن کی مثا ل کبھی دیکھنے میں نہیں آئی یہ غیر معمو لی حا لا ت میں غیر معمو لی اقدام کی مثا ل ہے پا کستان کو بھی اس وقت عالمی مر ض پر قا بو پانے کےلئے غیر معمو لی حا لا ت کا سامنا ہے ان حا لا ت میں حکومت کو غیر معمو لی اقدامات پر غور کر نے کی ضرورت ہے بلکہ شدید ضرورت ہے مکمل لا ک ڈاﺅن کے بغیر سٹینڈر اوپر ٹینگ پر و سیجر ز( SOPs) کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اگر عوام بھاری تعداد میں بازاروں میں خریداری کےلئے نکل جا ئیں بازار وں میں خریداروں کا جمگھٹا لگا رہے تو کو رونا پھیلتا رہے گا ہا تھوں کی دھلا ئی اور ما سکوں کے استعما ل سے فر ق نہیں پڑے گا کیونکہ حکومت کی طرف سے غیر سنجیدہ رویے کو دیکھ کر عوام بھی غیر سنجیدہ رویہ اختیار کر تے ہیں یہ نفسیا تی اور معا شرتی اصولوں کا معا ملہ ہے حکومت جو قا نون لا تی ہے عوام کی طرف سے کوشش کے باو جو د اس پر سو فیصد عمل نہیں ہو تا جب حکومت قانون ہی نہ بنائے لا ک ڈاﺅن نہ کرے تو عوام سے کیا گلہ کیا جا سکتا ہے ؟ قابل عمل کا م یہ ہے کہ دو دنوں کی جگہ ہفتے کے سات دنوں کا لا ک ڈاﺅن لگا کر غریبوں اور مز دوروں کو ان کے گھر وں پر راشن پہنچا یا جا ئے متمول طبقے کےلئے سودا سلف گھر و ں پر پہنچا نے کا بند و بست کیا جا ئے اس طرح کاروبار متا ثر نہیں ہو گا، غریب بھی بھوک سے نہیں مرے گا نیز تما م اضلا ع میں قرنطینہ کے مرا کز قائم کئے جا ئیں اس طرح وائرس کے پھیلنے کا چا نس نہیں رہے گا اور وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اس بیماری سے ہونے والی اموات میں کمی آئے گی اور ویکسی نیشن کی صورت میں اس کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔