رمضان: تربیت نفس۔۔۔۔

عبادات کی تاریخ میں نماز کی طرح روزہ بھی نہایت ہی قدیم ہے۔ قرآن کریم (سورہ بقرہ) میں روزے کی تاریخ اور اِس کا مقصد بیان کیا گیا ہے (ترجمہ) کہ روزہ مسلمانوں پر اُسی طرح فرض کیا گیا‘ جس طرح کہ اِن سے قبل قوموں پرفرض کیا گیا تھا“ اُور روزے کے فرض کرنے کا مقصد ’تربیت نفس‘ ہے۔ ‘عربوں کی تاریخ (زمانہ¿ جاہلیت) میں بھی روزہ رکھنا اجنبی نہ تھا۔ ان کی زبان میں لفظ ’صوم‘ کا وجود بجائے خود اِس بات کوثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ وہ اِس عبادت سے پور ی طرح واقف تھے۔ ”المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام “میں درج ہے کہ ”روایتوں میں ہے کہ قریش یوم عاشور کا روزہ رکھتے تھے۔ اِس روزوہ جمع ہوتے‘ خوشی (عید) مناتے اور (عاشور کے دن) بیت اللہ کو نیا غلاف پہناتے۔ روایتوں میں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اعلان ِنبوت سے پہلے کثرت سے روزہ رکھتے تھے۔ اہل قریش قحط سالی سے نجات کے شکرانے میں روزے رکھتے تھے۔ اِسی طرح یہود و نصاریٰ کی شریعت میں بھی روزہ عام عبادت و معمولات میں شامل رہا۔ بائبل میں اُن کے روزوں کا ذکر موجود ہے اور اِس کے لئے خاص لفظ (اصطلاح) کے علاوہ بعض مقامات پر ’خود کو دکھ دینے‘ اور ’نفس کشی کرنے ‘ کی استعارے بھی استعمال کئے گئے ہیں۔روزے کی تاریخ سے واضح ہے کہ نماز اور زکوٰة کی طرح یہ عبادت بھی قرآن کے مخاطبین کے لئے اجنبی نہ تھی۔ وہ اِس کی مذہبی حیثیت اور اِس کے حدودو شرائط سے پوری طرح واقف تھے چنانچہ وحی کے ذریعے روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تو اِن حدودوشرائط میں سے کوئی چیزبھی بیان نہیں کی بلکہ ہدایت فرمائی کہ خدا کے ایک قدیم حکم اور انبیا علیہم السلام کی قدیم سنت کے طور پر روزہ رکھنے کا حکم دیتا ہے اور اِس کا اہتمام لازمی عبادت کے طور پر کیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے اِس حکم کے عین مطابق روزہ رکھا اور اہل اسلام اب اِسی طریقے کی پیروی کر رہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ روزے کے تقاضے کیا ہیں؟ روزہ دار کے لئے عظیم انعامات کا اعلان کیا گیا تو یقینا روزہ محض بھوکے اور پیاسے رہنا کا نام نہیں بلکہ ہر قسم کے منکرات (گناہوں) سے بچنے اور بعض جائز و مباح امور سے بھی (بحالت روزہ) پرہیز کا ذریعہ ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو کسی کے بھوکے‘ پیاسے رہنے کی پروا نہیں۔ اس لئے روزے کی حالت میں فحش گوئی‘ جھوٹ‘ غیبت‘ سمیت تمام صغیرہ‘ کبیرہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کی جائے۔ روزہ تربیت گاہ ہے اور بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ صرف کھانے پینے سے گریز نہیں بلکہ ہاتھ کا بھی روزہ ہو‘ زبان‘ آنکھ اور کان بھی روزہ دار ہوں۔ روزہ تقاضا کرتا ہے حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد ادا کئے جائیں۔ ناجائز منافع خوری سے توبہ اور عہد کیا جائے۔ کاروبار‘ تجارت‘خرید و فروخت اور لین دین دھوکہ و فریب سے پاک ہو۔ بالخصوص روزے کی حالت میں حقوق العباد سے متعلق امور اور معاملات کا بالکل اُسی طرح خیال رکھا جائے جس طرح نماز اور وظائف‘ قیام اللیل اور تلاوت کے دوران خصوصی (والہانہ) اہتمام کیا جاتا ہے۔