تیسرا سمجھوتا۔۔۔۔۔

ہفتہ اتوار کو تو ویسے بھی بازار بند ہوتے ہیں ۔یہ رمضان سے پہلے کی بات ہے ۔ پھر اس کے علاوہ عام دنوں میں سرِ شام بھی بازاروں کو بند کروایا دیا جاتا ہے ۔کیونکہ جو تیسری لہر ہے وہ زہر ہے ۔پہلی لہر میں کتنے پیارے اس بہا¶ کے دوش پر چلے گئے ۔پھر دوسری لہر کی موجوں میں بھی لپٹ کر کتنے ہی اس دبا¶ کے آگے ٹھہر نہ سکے۔ اب تیسری لہر نے جیسے امواج کے تھپیڑوں کا پکا ارادہ کر لیا ہے ۔زندگی سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ پھر ایک نہیں کئی ۔ پھر ایک کے بعد دوسرا ۔ زندگی آسان نہیں۔یہاں قدم قدم پر اپنے جینے کے بہانے ڈھونڈنا پڑتے ہیں۔ بازاروں کی ویرانی نہیں دیکھی جاتی۔ دکانوں پر رش تو ہے ۔مگر مجموعی طور پر گاہک غائب ہیں ۔ہفتہ اتوار کو جب بازار میں جانا ہوا تو ایک ویرانی کا عالم دیکھ کر دل رویا ۔وہ شعر یاد آیا” بن میں ویراں تھی نظر شہر میں دل روتا ہے۔ زندگی سے یہ میرا دوسرا سمجھوتا ہے ۔“مگر تیسری لہر کے سامنے تو یہ ہمارا تیسرا سمجھوتا ہے ۔سمجھوتا کیا ہے ۔ کچھ لو کچھ دو کا نام ہے۔ اپنی ساری کی ساری نہیں منوانی ۔ کچھ دوسرے کی ماننا ہے اور کچھ اپنی سی منوانی ہے ۔تب جا کر سمجھوتے کی کیفیت نمودار ہوتی ہے۔مگر جو اس کنٹریکٹ کے قائل نہیں ان کی نا سمجھی پر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی ۔ جب وہ عالمی وائرس کا انکارکرتے ہیں اورنڈر ہو کر ہاتھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے نظر آتے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے ۔شہر سے ہٹ کر رنگ روڈ کے اُس پار کے شہری تو اپنی زندگی میں کسی پابندی کو برداشت نہیں کررہے۔مگر دوسری طرف ہسپتال بھرے پڑے ہیں۔لوگ گاجر مولیوں کی طرح کٹ رہے ہیں۔جن میں زیادہ تر تعداد شہر کے باہر کے لوگوں کی ہے ۔ مگر سبق سیکھنا جیسے ہماری فطرت میں شامل نہیں ۔ ہم اگرمریض کے ساتھ معاون ہو کر ہسپتال جائیں ۔ اس وقت لگتا ہے کہ سارا شہر مریض ہے ۔ پھر ہم توبہ توبہ کرتے ہوئے واپس لوٹ آتے ہیں۔ مگر جب اپنی زندگی میں واپس مڑ آتے ہیں تو ہم نڈرہو جاتے ہیں۔ہماری جھجک باقی کی بھی جو ہے ختم ہو جاتی ہے۔ہاں اگر خود مریض ہو ں تو شفایاب ہو کر واپس آتے ہیں تو پھر ہم کو بھرپور آگاہی حاصل ہوجاتی ہے کہ ہاں کورونا کاوجود ہے ۔ یہ بھی آخر کسی چیزکا نام ہے ۔پہلے تو اس پر ہم سو سو باتیں بناتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے اور خود ساختہ خیالات کا پلندہ ہے ۔مگرجب کسی پیارے کو اس کا شکار پا کر رات دن اس کے لئے پریشان ہو تے ہیں تو ہمیںلگ پتا جاتا ہے ۔ سوچتے ہیں کہ اب زندگی سے تیسرا سمجھوتا کرنا پڑے گا۔شہر کے جنازے بھی ویران ہو چکے ہیں ۔مگر گا¶ں میں یہ صورتِ حال نہیں ۔ وہاں تو جنازوں میں بہت رش ہو تاہے۔کیونکہ وہاں کورونا کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ مگر شہر کے لوگ اگر اپنی کسی تقریب میں شریک لوگوں کی کمی دیکھیں تو اس پر خفا نہیں ہوتے ۔ان کوحقیقت کا پتا ہے کہ شہری اب کیوں ایک دوسرے سے دور بھاگتے ہیں ۔ مگر شہری حدود والی سڑکوں کے اس پار کی آبادی کسی کی نہیں مانتی ۔ کورونا کی ویکسین کے معاملے میں بھی ان کے ہاں ایک طرح کی بے توجہی پائی جاتی ہے ۔مگر کوروناکا ڈنک کسی کی پروا خود نہیں کرتا ۔ جس کو لگ گیا لگ گیا۔اب تلک کوروناکے بارے میں مختلف باتیں سنی گئی ہیں ۔ہر آدمی نے جو بات سنی اس کے ساتھ ایک اور دم چھلا لگاکر آگے پیش کر دی ۔ جس سے معاشرے میں غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں ۔لوگوں نے گھروں میں مرنا قبول کیا مگر ہسپتال جاکر علاج کرنا ان کی کتاب کے کسی ایک صفحے پر نہیںہے ۔دوسری جانب سکول بند ہیں ۔پہلے کہا گیا کہ سردی میں اس انیس نمبر کووڈ کی بہتات ہوگی ۔جب گرمی آئے گی تو اس کا خاتمہ ہو چکا ہوگا۔ مگر ایسا تو ہرگز بھی نہیں ہوا۔ بلکہ گرمی سردی اس کا پھیلا ¶ برابر لگا رہا او راب تلک اس کی زہرناکی بدستور جاری ہے ۔باہر ملکوں میں تو شہری سال بھر سے ازخود گھروں میں قید ہیں ۔ مگر وہاں سہولیات بھی تو بہت ہیں۔ ا ن کو گھر کے اندر اپنے آپ کو لاک کردینا مالی طور پر کوئی تکلیف نہیں پہنچاتا ۔ان کو حکومت کی جانب سے گھر کے اندر اتنا مل جاتا ہے کہ انھیں باہر نکل کر اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں ۔وہ باشعور قومیں ہیں پھر ان کی خوش قسمتی ہے کہ وہاں ان کومالی خسارے وہ نہیں جو ہمیں ہر فرد کو الگ الگ حاصل ہیں۔ہمارے ہاں تو پورے ارضِ وطن میں غربت کا یہی حال ہے کہ جوآدمی گھر کے اندر بیٹھ گیا اور خود کو لاک کردیا وہ بھوک سے ستایا جائے گا۔اس کو اپنے بال بچوں کی بھوک کے آگے اس وائرس کی برائی نظر نہیں آتی ۔ سو یہاں کے لوگ اگر اس حوالے سے بے پروا ہو چکے ہیں تو اس کی وجہ ہماری معاشی کمزوری ہے۔ ہر چند کہ حکومت اس کی روک تھام میں مصروف ہے ۔مگر یہ ملک بنیادی طور پر ایک غریب ملک ہے ۔یہاں شہریو ںکو گھروں تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں جتنی سہولیات بھی دے دی جائیں شہریوں کے لئے اتنی ہی کم ہیں۔ کیونکہ یہاںکے عوام کے زخم اتنے زیادہ ہیں کہ ان پر پھائے رکھتے رکھتے ہاتھ تھک جائیںگے مگر ان کے زخموں کی سوجن اور سرخی ختم ہونے میں نہیں آئے گی۔