آبا دی اور حلقہ بندی۔۔۔۔

وفا قی وزیر اسد عمر نے مشترکہ مفادات کو نسل (CCI) کے فیصلوں کا اعلا ن کر تے ہوئے کہاہے کہ حکومت نے تحفظا ت کے باو جو د 2017کی مر دم شما ری کے نتا ئج کو منظور کر نے کا فیصلہ کیا ہے ان نتا ئج کو مستر د کرنے کی صورت میں 1998کی مر دم شما ری کی طرف رجوع کرنا پڑیگا جس میں 20سالوں کا فرق ہے نئی مرد م شماری اکتو بر 2021میں شروع ہو گی اور 2023میں مکمل ہو گی تا ہم اسکی رپورٹ 2023 کے آخر میں آئیگی اس لئے ہمیں نئی مرد م شما ری کی بنیا د پر بلدیا تی الیکشن اور عام انتخا بات کے لئے حلقہ بند یوں پر نظر ثا نی کا مو قع نہیں ملے گا دونوں انتخا بات اس مر دم شما ری کی بنیا د پر ہونگے اس کے بعد نئی حلقہ بند یاں ہو نگی تو نئی مردم شما ری کے مطا بق ہو نگی مردم شماری کا ذکر جب بھی آتا ہے شما ریات ڈویژن کے طرز عمل اورقا نو ن کی پیچید گی کا ذکر آتا ہے 2017کی مر دم شما ری کیلئے پا رلیمنٹ سے جو بل منظور کیا گیا اس میں ایک سقم ہے قا نو ن میں کہا گیا ہے کہ کسی کنبے کے جو افراد ملا زمت یا تعلیم کے سلسلے میں دوسرے شہر کے سفر پر گئے ہوئے ہوں ان کو کنبے میں شما ر نہ کیا جائے یکہ توت پشاور شہر کا ایک وارڈ ہے اس وارڈ کے 2500با شندے پنڈی‘ اسلام آباد‘ لا ہور اور کر اچی میں تعلیم یا نو کر ی کیلئے مسافر ہیں سب کی رجسٹریشن نا درا کے ریکارڈ میں ہے سب کے نا م ووٹر لسٹ میں در ج ہیں اور سب ووٹ دینے کیلئے یکہ توت پہنچ جا تے ہیں مگر قانون میں یکہ توت کی ڈھا ئی ہزار آ با دی کو مردم شماری کے حساب سے خا رج کیا گیا ہے اس طرح مردم شماری کی رپورٹ نہ نا درا کے ریکارڈ سے مطا بقت رکھتی نہ ووٹر لسٹ سے مطا بقت رکھتی ہے اگر شہری سہو لیات کی فراہمی کے نقطہ نظر سے یہ قانون بنا یا گیا ہے تو یہ قا نو ن ٹیکنا لو جی کے موجودہ دور کے ساتھ مطا بقت نہیں رکھتا ٹیکنالوجی میں یہ گنجا ئش مو جو د ہے کہ یکہ تو ت کے 2500با شندوں کو یکہ تو ت کا مستقل رہا ئشی ظا ہر کر نے کے ساتھ ساتھ اندرون ملک شہروں اور بیرونی ملکوں میں ان کی عارضی رہا ئش کو صاف اور شفاف طریقے سے دکھا یا جائے ایک ہی پروفارمہ تما م معلو مات کو ظا ہر کرے گا مر دم شماری کا نام آتے ہی دوسرا مسئلہ ہمیشہ سر اُٹھاتا ہے یہ وہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے بیرونی یونیورسٹیوں کے محققین ہر وقت ہماری مر دم شماری رپورٹ کا مذاق اڑا تے ہیں ایک جر من پرو فیسر نے میرے سامنے 1998ء کی مر دم شما ری رپورٹ کو دیکھنے کے بعد پھینک دیا مو صوف یو نیسکو کے ایک پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا اور اس کو خیبر پختونخوا میں کالا ش اقلیت کی آبادی کے اعداد شمار کی تلا ش تھی اُس رپورٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھا اس میں کچھ نہ ملا پروفیسر کو یہ جا ن کر حیرت ہو ئی کہ پوری دنیا میں خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی کا لا ش آبادی اپنی مخصوص ثقا فت کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے مر دم شماری میں اس آبادی کا شمار نہیں میں نے جر من پروفیسر کو بتا یا کہ ہماری مر دم شما ری 1911 کے پروفار ما کے مطا بق ہو تی ہے وہ ٹا ئپ رائیٹر کا پروفار مہ ہے جس میں صرف 7خانے ہیں پاکستان کی اقلیتوں میں سے صرف 2کا نا م آسکتا ہے با قی سب کو وغیر وغیرہ کے خا نے میں ڈال دیا جا تا ہے جر من پرو فیسر نے حیرت اور تعجب سے پوچھا یہ لو گ کمپیو ٹر سے کا م کیو ں نہیں لیتے؟ کمپیوٹر میں 70با کسز (Boxes) بھی آسکتے ہیں 110با کسز بھی آ سکتے ہیں اس پر میں نے اپنے مہمان کو بتا یا کہ چترال اور گلگت میں 10 لاکھ کی زبان کھوار کو بھی وغیرہ وغیرہ والے با کس میں ڈال دیا جا تا ہے کا لا ش اقلیت اور کھوار بولنے والوں کی آبادی نے مار چ 2017ء میں عدالت سے حکم حا صل کیا پھر بھی ان کا ذکر مر دم شماری میں نہیں آیا وفا قی وزیر اسد عمر بہت پڑ ھے لکھے آدمی ہیں نئی مر دم شماری میں ان امور کا خیال رکھا جا ئے تو بہتر ہو گا مقا می آبا دی کو تسلی ہو گی بین الاقوامی سطح پر پا کستان کی مر دم شماری رپورٹ کو مذاق نہیں سمجھا جا ئے گا بڑی بڑی یو نیور سٹیوں کے محققین ہماری مر دم شماری رپورٹ کو اٹھا کر با ہر نہیں پھینکیں گے۔