پہلا سوال: محبت بوجھ بن چکی ہے‘ کہیں محبت بوجھ تو نہیں بن چکی؟ اہل پشاور کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ جن سیاسی جماعتوں کے نامزد انتخابی اُمیدواروں کو بار بار کامیابی دے کر یا پھر چہرے بدل بدل کر عام انتخابات میں ممتاز (سرخرو) کیا گیا اُن کی کارکردگی کیا رہی اور اُن کی کارکردگی کیا ہے؟ عام و ضمنی انتخابات کے موقع پر بلند بانگ دعوے (وعدے) کرنے والے کہاں ہیں کہ جنہیں ’پشاور کے مفادات کا تحفظ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن اِس ذمہ داری اور موجودہ برسرزمینی حالات (خاص تناظر و ماحول) میں اُن کا دور دور تک نام و نشان تک نہیں اور نہ ہی باآواز بلند تقاریر کرنے والوں کی پشاور کے حق میں کوئی ایک جملہ ہی سنائی دے رہا ہے! پشاور سے ’تعلق لیکن لاتعلقی‘ پر مبنی اِس طرز عمل کو کیا نام دیا جائے؟دوسرا سوال: 215 مربع کلومیٹر اور 92 یونین کونسلوں پر پھیلا پشاور واضح طور پر 5 حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلا حصہ اندرون شہر‘ دوسرا حصہ بیرون شہر لیکن اندرون شہر سے متصل‘ تیسرا حصہ مضافاتی دیہی علاقہ‘ چوتھا حصہ جدید بستیاں اور پانچواں حصہ چھاؤنی پر مبنی ہے چونکہ چھاؤنی ایک الگ موضوع ہے اور اُس کی انتظامیہ و منتخب بلدیاتی نمائندوں کی الگ اسمبلی ہوتی ہے اِس لئے 13.64 مربع کلومیٹرز (3278 ایکڑز) پر پھیلی چھاؤنی کا باقی ماندہ پشاور کے بلدیاتی امور سے تعلق نہیں ہوتا۔ پشاور کی 4 تحصیلیں ہیں جبکہ غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق آبادی 80 لاکھ سے زیادہ ہے اور کم سے کم 4 نئی تحصیلوں کی ضرورت ہے۔ پشاور میں حسب حال (حسب آبادی) نئی تحصیلوں کا اضافہ کون کرے گا؟تیسرا سوال: پشاور کے اندرونی علاقوں پر مشتمل ٹاؤن دیگر علاقوں کی نسبت سب سے زیادہ گنجان آباد ہے لیکن اِس کے مسائل بارے یہ تاثر دینا کہ یہ ’گنجان آبادی‘ کی وجہ سے ہیں سراسر فریب ہے۔ درحقیقت اندرون شہر کے مسائل اِس وجہ سے ہیں کہ حکومت کی جانب سے مختلف ذمہ داریوں کے لئے الگ الگ محکمے‘ الگ الگ ترجیحات اور اِن کے انتظامی عہدوں پر فائز فیصلہ ساز الگ الگ سیاسی وابستگیاں رکھتے ہیں سیاسی و انتخابی تعلق وابستہ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کیلئے پشاور انتخابی حلقوں کا نام ہے۔ اِن انتخابی حلقوں میں ترقی کے عمل کی اپنی اپنی کہانی ہے‘ جو ناپائیداری سے شروع ہو کر ناپائیداری پر ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے اور یہی ’ناپائیداری‘ پشاور کا وہ دیرینہ حل طلب مسئلہ ہے‘ جس پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ غلط منصوبہ بندی‘ ناقص کام کاج اور مالی و انتظامی بدعنوانیوں جیسے محرکات نے ترقی کے عمل کو بے معنی کر کے رکھ دیا ہے۔ سڑکیں‘ گلیاں‘ کوچے‘ نالے نالیاں بڑے اہتمام اور چرچے سے بنائی جاتی ہیں‘جلی حروف سے کارہائے نمایاں کا سنگ بنیاد اور افتتاح کی تختیاں لگائی جاتی ہیں جن کے رنگوں کی چاشنی اور ترقیاتی کام بارشوں اور دھوپ (موسمی اثرات) کے ساتھ تحلیل ہو جاتا۔ شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اِس قدر ناپائیدار ترقیاتی عمل دیکھنے کو ملے‘ جس میں چیچک زدہ تعمیرات چند ہفتوں یا زیادہ سے زیادہ گنتی کے چند مہینوں سے زیادہ کارآمد نہ رہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں! پشاور کے طول و عرض میں ’ناپائیدار ترقی‘ کو ’پائیدار‘ بنانے کے لئے قواعد سازی اور احتساب کی ضرورت ہے‘۔ رسمی طور پر مالی امور کی چھان بین (آڈٹ) کے نتائج انواع و اقسام کی خرابیوں کی صورت سب کے سامنے ہیں۔ بنیادی ضرورت بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کے آڈٹ اور مالی و انتظامی عہدوں پر فائز فیصلہ سازوں کے احتساب کی ہے‘ سزأ و جزأ پر مبنی نظام اور عوامی شکایات کی روشنی میں اہلکاروں کی کارکردگی کا سالانہ جائزہ کی ضرورت تو ایک عرصے سے محسوس ہو رہی ہے لیکن سیاسی و انتخابی ترجیحات کے سبب ’پشاور ترجیح نہیں رہا‘ تو صوبائی حکومت ”پشاور کی بحالی“ کے عنوان سے جو جامع و کثیرالجہتی ترقیاتی حکمت عملی کا وضع کئے بیٹھی ہے تو بنیادی ضرورت احساس کی ہے جس سے اہل پشاور کی اکثریت کا اتفاق ہے کہ سیاسی و انتخابی یا ملازمتی نکتہئ نظر سے نہیں بلکہ انسانی ہمدردی کے نکتہئ نظر سے بھی پشاور کو دیکھا جانا چاہئے؟چوتھا سوال: چوہے اور بلی کا کھیل ’پشاور کی تفریحات‘ کا حصہ ہے۔ پشاور کی آبادی تین اطراف (مشرق‘ شمال اور جنوب) اندھا دھند پھیل رہی ہے لیکن انتظامی طور پر ضلعی حکومت کی گرفت انتہائی کمزور ہے۔ 92 یونین کونسلوں کی کہانیاں الگ الگ لیکن تجاوزات کے تناظر میں ایک جیسی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک ٹاؤن کی صورتحال سے دیگر تینوں ٹاؤنز کے زمینی حقائق کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ضلعی و شہری بلدیاتی نظام (ڈسٹرکٹ گورنمنٹ‘ ٹاؤن ون‘ ٹاؤن ٹو‘ ٹاؤن تھری اور ٹاؤن فور) میں تجاوزات کے خلاف ’ٹاؤن ون‘ کی کاروائیاں اور تجاوزات قائم ہونے کا سلسلہ سارا سال بلکہ چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے۔ ٹاؤن ون کے سوشل میڈیا کھاتوں (اکاؤنٹس) میں ایسی کاروائیوں کی دھوم رہتی ہے‘ جو صوبائی حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ منطق ناقابل ہضم ہے کہ گنتی کی 2 درجن سے زائد یونین کونسلوں کے مجموعے (ٹاؤن ون) کا کوئی ایک بھی بازار اور کوئی ایک بھی شاہراہ تجاوزات سے پاک نہیں۔ جن تجاوزات کو ختم کرنے کیلئے ٹاؤن ون کے تازہ دم اہلکار ہر صبح مرکزی دفتر سے نکلتے ہیں‘ اُس کے عین سامنے اور اطراف میں قائم تجاوزات دیکھ کر کارکردگی کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ وسائل کے باوجود پشاور ہر دن غریب اور مسائل کی آماجگاہ بن رہا ہے اور یہی وسائل ذاتی اثاثوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ مہمات بہت ہیں۔ عجائبات بہت ہیں اور تجاوزات بہت ہیں جن کے خلاف صوبائی حکومت کی براہ راست زیرنگرانی ایک سیدھی سادی کوشش کیوں ممکن نہیں؟حرف آخر: پشاور کے بلدیاتی اداروں سے متعلق ویب سائٹ (cdgpeshawar.gov.pk) تک رسائی بینڈوتھ (bandwith) ختم ہونے کے سبب معطل ہے‘ جسے الگ سے بحال کرنے پر خرچ کرنے کی بجائے اگر صوبائی حکومت کی ویب سائٹ (kp.gov.pk) ہی کا حصہ بنا دیا جائے تو اِس سے نہ صرف مالی اور افرادی وسائل کی بچت ہوگی بلکہ بذریعہ ویب سائٹ اہل پشاور اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ (ضلعی فیصلہ سازوں) سے رابطہ بھی بحال رہے گا۔