مداخلت درحقیقت کون کرتا رہا ہے؟۔۔۔۔۔۔

افغانستان ہمیشہ پاکستان پر مداخلت کا الزام لگاتا رہا ہے لیکن آئیے دیکھتے ہیں ماضی میں خود افغانستان کا طرزعمل پاکستان کے حوالے سے کیسا رہا ہے۔افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی،قیام پاکستان کے وقت 1893 کی برطانوی ہند اور افغانستان کی سرحد ڈیورینڈ لائن کو ماننے انکار کی وجہ سے تلخیوں کا آغاز ہوا۔ افغانستان اسے بین الاقوامی اور باقاعدہ سرحد نہیں مان رہا جبکہ پاکستان کیلئے یہ ایک مسلمہ بین الاقوامی سرحد ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ افغانستان نے آج تک سوویت یونین کی جانشین وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ اپنی سرحدوں (جن کا تعین برطانیہ اور سویت یونین نے افغان حکومت کو باہر رکھ کر کیا تھا) اور ایران افغان سرحد (جس کا تعین برطانیہ اور ایران نے افغان حکومت سے پوچھے بغیر کیا تھا) پر اعتراض نہیں کیا لیکن وہ ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتا اگرچہ اس کا تعین افغان حکومت کی رضامندی سے ہوا اور بعد میں تین معاہدوں (1905 919, 1 1921) میں دیگر افغان حکومتوں نے بھی اسے قبول کیا۔یعنی تعلقات خراب کرنے اور مداخلت کی ابتدا افغانستان نے کی اور پھر اس مخاصمانہ پالیسی کو دوام دیا۔ پاکستان نہیں بلکہ افغانستان نے ہی ماضی میں پاک افغان سرحد کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ 1949، ستمبر 1950, نومبر 1955, مارچ اور ستمبر 1960, ء 1961, ستمبر 1965, جون 2016، ء 2017 اور دیگر اوقات میں افغانستان نے پاکستانی سرحد پر حملے کیے۔ وہاں مختلف مواقع پر پاکستان کے سفارت خانے پر حملے ہوئے۔۔ اب بھی کئی پاکستان مخالف تنظیمیں مبینہ طور پر افغانستان سے پاکستان میں کاروائیاں کررہی ہیں۔ قبائلی اضلاع، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کاروائیاں کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کے مراکز مبینہ طور پر اب بھی افغانستان میں قائم ہیں۔24 دسمبر 1979ء کو روس نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ اگر روس نے حملہ کیا، چالیس لاکھ افغان پاکستان ہجرت کرکے آئے، جنگ میں پندرہ لاکھ افغان قتل ہوئے اور سردار داؤد سمیت کئی افغان رہنما خاندان سمیت قتل کیے گئے تو ان کا پاکستان بالکل بھی ذمہ دار نہیں تھا۔ روس کی مداخلت افغانستان کی کیمونسٹ پارٹی کے خلق اور پرچم دھڑوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ تھی اور روس افغان حکومت کی درخواست پر ہی افغانستان آیا تھا۔ اگر افغانستان کے کمیونسٹ گروہ ایک دوسرے اور مخالفین کے ساتھ تھوڑی رواداری دکھاتے اور افغان حکومت روس کو افغانستان آنے کی دعوت نہ دیتی تو افغانستان یقیناً تباہی و بربادی کا سامنا نہ کرتا۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر متعارف ہوا اور اس کا معاشرہ مسلح انتہاپسندی کی راہ پر چل نکلا۔ ستمبر2001 میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کا ذمہ دار بھی پاکستان نہیں تھا۔افغان جنگ کی وجہ سے تو پاکستان میں جو دہشت گردی شروع ہوئی اس کی وجہ سے پاکستان کو وسیع جانی، معاشی اور معاشرتی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ چنانچہ پاکستان کا مفاد اس میں ہے اور وہ مخلصانہ کوشش کررہا ہے کہ افغانستان میں جتنی جلد ممکن ہو مفاہمت ہو اور امن آجائے۔افغانستان میں پاکستان کے خلاف نفرت رکھنے اور پھیلانے والے کون ہیں؟ افغانستان کے وہ لوگ جو دیہات میں رہتے ہیں وہ پاکستان کو پسند کرتے ہیں مگر افغان حکومت میں بااثر طبقہ بظاہر پاکستان مخالف افراد پر مشتمل ہے جو ایسے اقدامات اٹھاتا اور بیانات جاری کرتا ہے جن سے دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں بڑھ جاتی ہیں۔آج افغانستان بھارت کی سازش اور اُکسانے پر پاکستان پر بے بنیاد الزام تراشی کررہا ہے۔ افغانستان یاد رکھے کہ بھارت اس کا پڑوسی ہے نہ کوئی قابل اعتبار ساتھی۔ اس کی پاکستان و مسلم دشمنی بھی ایک بین حقیقت ہے۔ کئی اقوام باہمی دشمنیاں فراموش کرکے تجارت اور باہمی ترقیاتی منصوبے شروع کر چکیں۔ پاکستان اور افغانستان بھی بدگمانیوں اور الزامات کے بجائے باہمی احترام، تعاون، باہمی مفاد اور پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات استوار کرسکتے ہیں۔پاکستان افغانستان میں امن سے فائدہ اور وہاں بدامنی سے نقصان اٹھاتا ہے۔ پاک افغان تجارت جو پانچ ارب ڈالر سالانہ تھی 2019 میں کم ہوکر 1.37 ارب ڈالر جبکہ2020 میں 870 ملین ڈالر ہوگئی ہے۔ اس تجارت میں پاکستان سے پچھتر فیصد برآمدات ہوتی ہیں یعنی اس تجارت کی بحالی میں بھی پاکستان کا فائدہ ہے اور اس وجہ سے بھی پاکستان دونوں ملکوں میں امن اور خوشگوار تعلقات کیلئے کوشاں ہے۔