کون سی چیز ہے جو سستی ہے۔ گرانی جو پہلے تھی اس میں اور تیزی آئی ہے۔ آئے دن اخبارات میں چیزوں کی ہوش ربا مہنگا ئی کے چرچے ہیں۔سو اب بازار سے کیا لینا دینا۔ جب لینا نہیں توکاہے کو بازارکی خاک چھانیں۔ جو دستیاب ہے جو اپنی اوقات ہے اس کے مطابق کھا پی لو۔پھر رات کو ”جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہاکے سو جا۔ کہیں سن نہ لے زمانہ اے دل خموش ہوجا“۔فروٹ کی گاڑی کی طرف تو دیکھنا بھی نہیں۔اگر دیکھ لو تو منہ موڑ لینا۔احسان دانش کا شعر بہت بے وقت یاد آیا ہے”زندگی عشق میں یوں گذری ہے اپنی دانش۔ جیسے بازارسے نادار گذرجاتا ہے“۔مرغی کھانا تو بہت بڑی عیش ہے۔ جیسے ہمسایہ ملک کے بعض علاقوں میں اتنی غربت ہے کہ وہاں پاؤں میں جوتیاں پہننا بہت بڑی عیش ہے۔یونہی یہاں فروٹ کھانا اور مرغی بلکہ ٹماٹر بھی خریدنا بہت عیش ہے۔جیسے خط آدھی ملاقات ہے ویسے عیش کا ذکر کرنا آدھی عیش ہے۔ سو جو خرید نہیں سکتے ان کا ذکر کر دینا بھی تو عیش کے زمرے میں آتا ہے۔ایک دوست ملے کہنے لگے تین بجے تنخواہ لاتاہوں اور پانچ بجے ختم ہو جاتی ہے۔مجھے اپنے اوپر رشک آیا اور شکر کیا کہ ہمارا حال تو ان سے اچھا ہے۔ہماری ماہانہ آمدنی مہینہ بھر اگر چل نہیں پاتی تو پہلی کو آئی اور پانچ تاریخ کو ختم ہو جاتی ہے۔مگر ان دنوں تو حال برا ہے۔ہمارے دکانداروں بھائی بند وں نے روزوں سے پہلے ہی اپنی چھریاں چاقو تیز کر لئے تھے۔ جن سے بارہا تو چھری کے کند ہوجانے پر وہ اپنے ہی شہریوں اپنے ہی بھا ئیوں کو الٹی چھری سے بھی کاٹتے ہوئے نظر آئے۔مگر ان دنوں تو انھوں نے چھریاں اتنی تیز کر لی ہیں کہ بندہ دو فٹ دور سے بھی گذرے تو اس کی آمدنی کو کو کٹ لگ جاتا ہے۔ شکایت کرو تو دکانداروں کے اپنے اپنے بیانات ہیں۔ ہم کیاکریں ہم نے ٹیکس دینا ہوتا ہے۔پھر جہاں سے لاتے ہیں وہاں سے مہنگا ملتا ہے۔ مگریہ بات اس لئے درست نظر نہیں آتی کہ ان کی قیمتوں میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔اگر خیبر بازارسے پوچھو تو کھانے پینے کی چیزوں کے الگ نرخ ہیں اورنوتھیہ بازار سے جاکر معلوم کرو تو وہاں چیزیں الگ قیمتوں پر دستیاب ہیں پھر اگر دلہ زاک روڈ ہشنگری وغیرہ جا ؤ تو اشیاء کی جدا قیمتیں پاؤ۔کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ کس کودوش دیں۔ کس کو قصوروار ٹھہرائیں۔کہا گیا ہے کہ جو افسر مہنگائی میں کمی نہ لایا اس کے خلاف ایکشن ہوگا۔ مگر سب کو معلوم ہے کہ اشیاء کی یہ گرانی تو آئی ایم ایف کے قرضوں کا ثمر ہے۔وہ شعر کہ ”قسمت کی خوبی دیکھئے خود قتل کر کے آپ۔ ہم سے ہی پوچھتے ہیں یہ کیا ماجرا ہوا“دکھ یہ ہے کہ چیزوں کے نرخ زیادہ ہوئے اور اس پران کے وزن بھی پہلے سے کم ہو گئے۔ کس کس چیز کارونا روئیں۔ وزن کو روئیں یا نرخوں کو روئیں۔پھر ایک رونا بھی ہے۔ وہ رونا یہ ہے کہ چیزیں نقلی ملتی ہیں۔ ہر شئے میں دو نمبری گھس آئی ہے۔پھر دونمبری میں بھی ایک نمبری کے کھیلواڑ ہیں۔”شعر کااس وقت یاد آنادرست نہیں مگر یاد آ جائے تو کون روک سکتا ہے”اک روز کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے۔ ہر روزکے رونے کوکہاں سے جگر آئے“۔غریب نے اب بازار جانا ہے۔بچوں نے فرمائشیں کردی ہیں۔ وہ چارپائی پر بیٹھا پلاننگ میں مصروف ہے کہ کیا لانا ہے اورکتنالانا ہے۔ کیالانا اورکیا چھوڑنا ہے۔وہ نکلنے سے پہلے اپنی پاؤں کی جانب بچھی ہوئی زمین کو بڑے غورسے گھور رہاہے۔کسی گہری سوچ میں مبتلا ہے۔کیاکرے یہ زندگی تو روز بروز کٹھن ہوئی جاتی ہے۔”کب تیری بھی شنوائی اے دیدہ ئ تر ہوگی“۔دیکھتی آنکھیں آنسوؤں سے بہتی آنکھیں بن گئی ہیں اور سنتے کان دُکھتے کان معلوم ہو رہے ہیں۔ کیونکہ صرف دیکھنا ہوتا تو دیکھ لیتے اور صرف سننا ہوتا توایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال لیتے۔جو ہر آدمی اور ہر پارٹی کے بس کی بات نہیں۔گوشت تو پہلے ہی بس کی بات نہ تھی۔ سال بھر میں کہیں کھا لیاتوکھا لیا وگرنہ گوشت کو تو بھول جائیں قیمہ کھانے کا تو سوچیں بھی نہیں وہ تو اس سے زیادہ مہنگا ہے۔ اب کہیں عیدِ قرباں پر گوشت کی شکل دیکھی تو دیکھی۔سبزی کھائیں مگر سبزی بھی کیاکھائیں۔ غریب کی تو لٹیا ڈوب چکی ہے۔سبزی بھی تو ارزاں نہیں۔ کیا ہے جو ارزاں ہے۔ کچھ بھی تو نہیں۔