یورپ میں جب اٹھارہویں اور اُنیسویں صدی میں زرعی و صنعتی انقلاب برپا ہوچکے تو بیسویں صدی میں کم لاگت سے زیادہ پیداوار کی طرف توجہ دی گئی۔ نئے (ہائبرڈ) بیج بنائے گئے اور مصنوعی کھادوں کا استعمال بھی بڑھا جس سے تمام فصلوں کی اوسط پیداوار دوگنا سے بھی زیادہ ہوگئی اور یوں مقامی ضروریات پوری کرنے کے بعد اجناس عالمی منڈیوں میں فروخت کرنے میں سرمایہ کاری کی جانے لگی جو نسبتاً آسانی سے زرِمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہے۔ اس حوالے سے ماہرینِ معاشیات نے ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی کہ یہ دیکھا جائے کہ کس ملک کی زمین کس فصل کیلئے زیادہ بار آور ہے اور اپنے ملک میں کس فصل کی کاشت سود مند رہے گی اور کون سی اجناس باہر سے منگوانا فائدے مند ہے؟ یہ معیشت کا سادہ سا اصول بیسویں صدی سے رائج ہے مگر پاکستان میں نہ تو زراعت و صنعت جدید سائنسی خطوط پر استوار نظر آتی ہے اور نہ ہی مسلمہ معاشی اصولوں اور نظریات کو خاطرخواہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ جنوبی پنجاب کی مثال موجود ہے جہاں کبھی تاحد نظر کپاس کے لہلہاتے کھیت یا گندم کی بالیاں ہوا میں محوِ رقص نظر آتی تھیں لیکن اب وہاں گنے کی فصل پہرہ دیتی معلوم ہوتی ہے۔کرشنگ سیزن میں کسان شوگر ملوں کو گنا فروخت کرنے کیلئے اجازت نامے (پرمٹ) کے حصول کی غرض سے جس طرح ذلیل و رسوا ہوتے ہیں وہ صرف کسان ہی بہتر جانتے ہیں ہے یا اُن کا خدا۔ ہر ٹرالی پر الگ سے ’کاٹ‘ کا کلہاڑا فیکٹری مالکان کی مرضی سے چل جاتا ہے! غریب کسان کو پہلے تو گنے کی فصل (محنت کا) مناسب نرخ نہیں ملتا۔ اگر نرخ مل بھی جائے تو پھر وقت پر ادائیگیاں نہیں ہوتیں کپاس فوری فروخت ہونے والی فصل (کیش کروپس) سمجھی جاتی تھی۔ کپاس چننے والے مزدور جن میں اکثریت خواتین کی ہوتی اور انہیں ’چونیاں‘ کہا جاتا روزانہ کی بنیاد پر کپاس کی چنائی کرتیں اور شام کو کپاس بیچ کر اپنے گھر کے چولہے جلاتیں۔ یہ محنت کش خواتین سارا سال کپاس کے سیزن کا انتظار کرتی ہیں تاکہ ان کو روزی میسر ہوسکے۔ دوسری طرف زمیندار کپاس کو مارکیٹ میں بیچ کر اُسی دن پیسے لے لیتا ہے اور ان کو خرچ کرکے معیشت کا پہیہ چلاتا ہے لیکن شاید پاکستان کی زرعی تاریخ کا سب سے بڑا معاشی المیہ جنم لینے کو ہے۔ بدقسمتی سے رواں برس کپاس کی پیداوار میں قریب پینتیس فیصد کمی آئی ہے۔ پچھلے سال پیداوار اَسی لاکھ سے زائد بیلز تھی جو کم ہوکر پچپن لاکھ بیلز رہ گئی ہے۔ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو اِس صورتحال میں زرعی ایمرجنسی کا نفاذ ہو چکا ہوتا۔ دفعہ 144 نافذ ہو چکی ہوتی لیکن ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت یا تو زراعت پر منحصر یا پھر ٹیکسٹائل کی صنعت پر۔ جب صنعتوں کو سستی روئی یا دھاگہ کپاس کی مقامی پیداوار سے نہیں ملے گا تو وہ کیسے پیداوار اور روزگار دیں گے؟ سردست صورتحال یہ ہے کہ کپاس کی مقامی ضروریات پورا کرنے کیلئے چین‘ بھارت یا دیگر ممالک سے روئی اور دھاگہ درآمد کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف بجلی کے نرخ پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں اور اگر اِس صورت میں خام مال بھی مقامی طور پر نہ ملے تو ٹیکسٹائل کی صنعت کیلئے مشکلات کا شمار کرنا قطعی مشکل نہیں‘ کیا پاکستان مقامی ضرورت کیلئے بھی کپاس کی پیداوار حاصل کرنے کے قابل نہیں رہے گا اور اِن دونوں اجناس کی درآمد ہی واحد صورت رہ جائے گی!؟ عجب تماشا ہے کہ ملک کی زرعی پالیسی شوگر ملوں کے مفادات پر قربان کر دی گئی ہے۔ یہ شوگر ملیں ہر سال پاکستان کی مقامی ضرورت سے زیادہ چینی پیدا کرتے ہیں‘ جسے دستاویزی اور غیردستاویزی طریقوں سے برآمد کرکے اربوں روپے کمائے جاتے ہیں! ذہن نشین رہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے گزشتہ ماہ (مارچ دوہزار اکیس) میں 81 شوگر ملوں کو 469 ارب روپے ٹیکس کے نوٹسز بھیجے ہیں جبکہ مجموعی طورپر یہ ملیں 800 ارب روپے سے زائد کا کاروبار کرتی ہیں! یہ انکشاف اپنی جگہ حیران کن ہے کہ چینی کی پیداوار (شوگر ملز) میں سرمایہ کاری کرنے والے حکومت سے سبسڈی (رعایت) لینے کے بعد چینی سستے داموں فروخت نہیں کرتے بلکہ اُس کی بڑی مقدار برآمد کر دیتے ہیں۔ کپاس کے نئے بیج‘ پانی لگانے کے فرسودہ نظام کی جگہ ڈپ اور فوارے سے آبپاشی اور قومی سطح پر نئی زرعی پالیسی سے نہ صرف گندم و کپاس کی فصلوں کے حوالے سے پیدا ہونے والے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ اجناس کی دیگر فصلوں کو درپیش خطرات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔