ایک تو ہمارے یار دوست ہیں جو فیس بک میں رین بسیرا کئے ہیں۔ عجیب سوال کرتے ہیں۔ یا تو نا سمجھی ہے یا جان بوجھ کر انجان بن جانے کے عالم ہیں۔”جو لوگ جان بوجھ کے انجان بن گئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ انسان بن گئے“۔کوئی پوچھتا ہے الماری کامذکر کیا ہے۔ یہ بھی بھلا کوئی سوال ہے۔ہر چیز کے جوڑے تو بنے ہیں۔مگر ہر چیز کا کبھی جوڑا ہوتا بھی نہیں۔جاندار چیزوں کے جوڑے تو ہیں۔مگر بے جان چیزوں کے جوڑے اکثر نہیں ہوتے۔کوئی لفظ مذکر پکا را جاتا ہے اس کا مؤنث ہوتا ہی نہیں۔اکثر پوچھتے ہیں یتیم کا مؤنث کیا ہے۔اب چاند ستارہ سورج ان کا مؤنث کیا ہے۔یا ر لوگ خواہ مخواہ بال کی کھال کھینچتے ہیں۔پھر کسی چیز کے پیچھے لگ جائیں تو چھوڑتے ہی نہیں۔ہم یہی کہتے ہیں کبوتر اڑ رہے ہیں۔حالانکہ ان میں کبوتریاں بھی ہوتی ہیں۔کوے کائیں کائیں کرتے ہیں۔ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ کوی کائیں کائیں کرتی ہے۔ کوے کا مؤنث تو ہے مگر اس کے لئے کوئی لفظ ہی نہیں۔ پھر بعض چیزوں کے مذکر مؤنث تو سرے سے موجودنہیں ہوتے۔کہتے ہیں پیزا کا مؤنث کیا ہے۔کبھی مؤنث ہوتے ہیں مگر ہم ان کو مذکر کہہ کر بلاتے ہیں جیسے کوا یا کبوتر۔ اس طرح کی لا تعداد مثالیں ہیں۔کوئی پوچھتا ہے کہ شیشہ کا مؤنث کیا ہے۔ اس کا مؤنث شیشی تو نہیں ہو سکتا۔ شیشی تو چھوٹی بوتل کو کہتے ہیں۔ جس میں گلی کوچے کے معالج اپنی دوا ڈال کر دیتے ہیں۔چھوٹی یے لگا دینے سے ہر چیز تو مؤنث نہیں بن جاتی۔اب پانی کو لیں۔ یہ تو مذکر ہے۔اسی طرح ان گنت الفاظ ہیں۔ پھر کچھ دوستوں کو یہ مسئلہ ہے کہ وہ ہر لفظ کا ترجمہ کرنا چاہتے ہیں۔ایک صاحب نے فرما دیا کہ ماسک کا اردو ترجمہ کیا ہوگا۔ اب لیٹر بکس کو لیٹربکس نہ کہیں خط گھسیڑو بول دیں تو کون پہچانے گا۔کہتے ہیں شوارما اور برگر کا ترجمہ چاہئے۔ میں نے کہا مجھے موبائل فون کا ترجمہ چاہئے۔ اگرنہیں ملتا توفون ہی کا ترجمہ کردیں۔ماسک کا ترجمہ کسی نے حفاظتی غلاف کہہ کربھیج دیا۔ کسی سے پوچھیں آپ نے حفاظتی غلاف کیوں نہیں پہنا۔و ہ آپ سے پوچھے گا یہ کیا ہوتا ہے۔اگرماسک کہہ دیں تو وہ جلدی سمجھ جائے گا۔ذہن کو بیدار ہونا چاہئے۔زبان کوئی بھی ہو اس میں دوسری زبانوں کے الفاظ بھی شامل ہوتے ہیں۔ دنیا میں کوئی زبان خالص نہیں۔جہاں تک اردو کا تعلق ہے۔ اس میں زیادہ تر الفاظ عربی پھر فارسی ہندی انگریزی اور ترکی سے آئے ہیں۔خود اردو کا لفظ ترکی سے آیا ہے۔ جس کا مطلب لشکرہے۔لشکر اس لئے کہ کسی لشکر میں ایک ہی علاقے کے سپاہی شامل نہیں ہوتے۔ کوئی کہاں اور کوئی کہاں سے آیا ہوتا ہے۔اردو کوایک زمانے میں ریختہ بھی کہا گیا۔ اس لئے کہ ریختہ سیمنٹ بجری پانی اورریت سے بنے مسالے کو کہتے ہیں۔جب کسی کے ہاں اولاد نہیں ہو تی تو وہ ایسا بھی کرتے ہیں کہ کسی عزیزرشتہ دار کی اولاد کو گود لے لیتے ہیں۔اس کو اپنا کر اپنا نام دے دیتے ہیں۔کوئی زبان ہو اس میں کسی چیز کے لئے لفظ نہ ہو تو دوسری زبان سے آئے گا۔ اس کو زبان وبیان کی دنیا میں لون ورڈز کہتے ہیں۔ اب کمپیوٹر ہے اگر ہم نے بنایا ہو تا تو اس کو ہم نے اس کو اپنا نام دیا ہوتا۔ میموری کارڈ کو ہم نے نہیں بنایا جنھوں نے بنایا ان کے الفاظ بھی ساتھ آئے۔اسی طرح ہمارے ہاں شادی بیا ہ کی درجنوں رسومات ہیں۔ان کے سینکڑوں نام ہیں۔جو انگریز معاشرے میں نہیں۔حتیٰ کہ دلہن کاسرخ جوڑا بھی وہاں نہیں۔وہاں تو دلہن کے لئے سفیدرنگ کاجوڑاہوتا ہے۔یہاں لسہ کا لفظ ہے جو دلہن کے سر پر چادر کی صورت میں ڈالتے ہیں۔ وہاں مہندی کی رسم نہیں۔ہم اگر انگلش میں شادی کارڈ چھاپیں گے تو اس پرمہندی کی رسم کو انگلش میں ترجمہ کریں تو کوئی نہیں پہچانے گا۔ سو ہم اس کو مہندی ہی لکھتے ہیں یا رسمِ حنا کہہ دیتے ہیں۔حتیٰ کہ ہندی معاشرے میں شادی سے پہلے جو ابٹن لگائی جاتی ہے اس کا ترجمہ ہمارے ہاں موجود نہیں۔کیونکہ ہمارے ہاں ایسا ہوتا نہیں۔جب کسی بھی معاشرے میں ایسا نہ ہوتا ہو توجس سرزمین کی چیزہو اس زمین کانام بھی ساتھ آئے گا۔ ہم لوگ اپنے ملک میں ابٹن کوابٹن ہی کہیں گے۔ کسی قوم کی تہذیب و ثقافت میں ایک چیزہوگی تو وہاں اس کا نام بھی ہوگا۔جو ساری دنیا میں پکارا جائے گا۔اسی طرح انگریزی میں ہزاروں الفاظ ہیں جو ہم نے ویسے کے ویسے اپنی زندگی میں اپنا لئے ہیں۔کیونکہ ہمارے پاس ان الفاظ کے متبادل نہیں ہیں۔موڈ، ٹشو، ٹشو رول، ٹشوٹاول، پرنٹر، کی بورڈ، ایل ای ڈی،سٹیپلر، سلوشن ٹیپج سوئچ ان کا ترجمہ کون کرے گا۔ ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں ہمارے ہاں انگریزی میں پکارے جانے والے ہزاروں الفاظ ہیں جو لون ورڈزکے طور پر ہم نے لئے ہیں۔اس سے زبان کا ذخیرہ الفاظ زیادہ ہو جاتا ہے۔جو اچھی بات ہے جو قوم جو چیز بناتی ہے وہی اس کا نام رکھتی ہے۔یہ سب باہر سے آئی ہوئی چیزیں ہیں جو اپنے نام ساتھ لے کر آئی ہیں۔ اگر ہم نے بنائی ہوتیں تو ان کو ہمارے دئیے ہوئے ناموں سے پوری دنیا میں پکارا جاتا۔