نیٹ نہیں تھاتو ہم نے بھی شکرادا کیا۔ جان چھوٹی۔ایک دن بڑے آرام سے گذر گیا۔ کان ٹھنڈے رہے۔ وٹس ایپ خاموش رہا اور ٹک ٹاک کی مستیاں چپ تھیں۔فیس بک کی شرارتیں دم بخود تھیں۔میسنجر کی ہر آن دھڑکتی ہوئی سرمستیاں لب بستہ۔کوئی ایس ایم ایس بھولے آ گیا تو آگیا وگرنہ کسی کا فون تک نہ آیا۔ کیونکہ انٹرنیٹ کی موجودگی میں جب موبائل کو ہاتھ میں تھامو توبندہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ یوٹیوب کے سمندر کی وہ جولانیاں ہوتی ہیں کہ توبہ توبہ۔فیس بک پر وہ وہ کارنامے اور فضول کی بحث کہ بندہ نہ چاہتے ہوئے تفریح کے نام پر اس میں پھنس جاتا ہے۔ ابھی فیس بک کی بحث میں اس کو جواب نہیں دیا ہوتا کہ وٹس ایپ پر وائس میسیج آن دھڑکتا ہے۔گھنٹوں اس بیکاری میں گذر جاتے ہیں۔ بندے کو معلوم نہیں ہوپاتا کہ وال کلاک کی سوئیاں کیسے ایک گھنٹے سے قدم اچھال کر دوسرے گھنٹے کے دائرے کے آخر پر پہنچ گئیں۔کہیں جے جے کار ہے اور کہیں ہا ہا کار مچی ہوئی ہوتی ہے۔ سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ موبائل کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔اگر یہ نہ ہو تو زندگی کتنی سہل ہے۔اس کی وجہ سے بندہ کو زندگی کے اور کاموں کیلئے وقت ہی نہیں ملتا۔بچے ہیں اور بڑے ہیں تو دونوں نسلیں ایک ہی کمرے میں ایک وقت میں بلا تمیزِ مرد و زن موبائل میں آنکھیں گاڑھے ہیں۔اگر انٹر نیٹ سروس خرا ب ہے تو بہت اچھا ہے۔ کسی بہانے ذرا سکون سے بیٹھے ہیں۔ کیونکہ ہم نے خود گروپ بنا رکھے ہیں۔ یا ہم کسی اور وٹس ایپ کے گروپ میں شامل ہیں۔دما دم ڈھول بج رہا ہے اور کبھی ایک پہلوان اکھاڑے میں آ رہا ہے اور کبھی دوسرا۔وہاں لندن سے سلیم اختر ہیں تو ڈنمارک سے آصف ہیں۔ دماغ کا دہی بن رہا ہے او رہم ہیں کہ شوق سے اس عمل کا حصہ ہیں۔ مگر جب نیٹ کے بغیر دوسرا دن گذرا تو یوں محسوس ہوا کہ کچھ گم ہو گیا ہے۔نامعلوم قسم کی بوریت اور بے قراری کا سامنا تھا۔زندگی جو چند روز پہلے بجلی کی تیزی کے ساتھ گذر رہی تھی یوں آہستہ ہوئی جیسے ایک جھیل جس کاپانی رکا ہو۔ کبھی کبھار ایک ایس ایم آجاتا جو اس جھیل کے ٹھہرے پانی میں کنکر ثابت ہوتا۔مگر دائرہ در دائرہ بڑھتی ہوئی وہ جولانی نہ تھی جو روزہوا کرتی ہے۔پہلے سوچا تھا بنی آدم کو موبائل کی کچھ ضرورت نہیں۔مگر جب نیٹ کے بغیر موبائل کو ہاتھ میں تھام کر ہاتھ تھکنے لگے۔ پھر یہ خود ایک مٹی کے پیالے کے ٹوٹے ہوئے دو ٹکروں میں سے ایک بے کار بے جان اور تاریک شیشہ محسوس ہوا تو خیال آنے لگے۔ وہ خیالات بھی متضاد اور الٹے۔یہ کہ موبائل کے بغیر بھی بھلا کوئی زندگی ہے۔جس کے پاس موبائل نہیں وہ تو غاروں کے دور میں زندگی گذار رہا ہے۔موبائل کی تو انسان کو اشد ضرورت ہے۔آج کل تو موبائل کے بغیر ایک دن گذارنا محال ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اگر میں موبائل پر کسی کو دستیاب نہیں ہوں اور کوئی مجھے نہیں مل رہا تو شہرِ خموشاں کا عالم ہے۔ سگنل آئے تو ایک دوسرے کو اطلاع دینے کی ضرورت کیا تھی۔ہر ایک کو پتا تھا۔کوئی تو روزہ کشائی سے پہلے اور کوئی افطاری کرتے ہی موبائل میں ایسا گھسا کہ پھر اس کو گھڑی کی سوئیوں کے تیز رفتار چکر کا احساس تک نہ ہوا۔گھر کے بچے بڑے موبائل کے ساتھ ایسے نتھی ہوئے کہ ایک کو دوسرے کا کیا احساس کیا پاس ہوتا کہ خود اپنی خبر نہ رہی۔کسی نے کانوں میں ٹونٹیاں لگا لیں اور کوئی کہتا مجھے آواز مت دو۔گھر کے سودے سلف سر کھا گئے اور چھوٹے میاں موبائل میں ایسے کھو گئے کہ پھر پائے نہ گئے۔گھر کے والد ہیں تو وہ اپنے گروپ کے سینئر لوگوں کے ساتھ وٹس ایپ چیٹنگ میں مصروف ہوگئے۔ کیونکہ ہر دوست کے چار دنوں میں آٹھ آٹھ وائس میسیج اور مووی کلپ آچکے تھے۔ جن کو اگر نہ بھی پڑھو اور دیکھو۔مگر ان کو اس لئے ڈیلیٹ کرو کہ موبائل کی میموری کا خلا پر ہو چکا تھا۔پھر اس صورت میں موبائل نے بھی کام کرنا چھوڑ دیاتھا۔بچے کونوں کھدروں میں اپنا اپنا موبائل لے کر بیٹھ گئے۔سگنل بند ہونے میں ایک دن راحت ملی تھی مگر اس کے بعد تین دن اس بندش کے دروان میں اکتاہٹ ملی تھی۔مگر اب پھر راحت کا سماں تھا۔ سگنل کے رک جانے سے پہلے اس سوچ میں تھے کہ موبائل کے استعمال کرنے کو ایک سیکرٹری رکھ لیا جائے۔ کیونکہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں جو موبائل کو استعمال کریں۔ مگر اب احسا س تھا کہ سیکرٹری کی ضرورت ہی کیا ہے ہم خود اپنے موبائل کو استعمال کرنے کے لئے کافی ہیں۔بس ایک تماشا شروع ہو گیا تھا۔ ساتھ والے کمرے سے وٹس ایپ پر وائس میسج آیا کہ ہندکو کا وہ نیا گانا جو آیا ہے وہ بھیجو۔میں نے فوراً سے پہلے بھیج دیاکہ اب وٹس ایپ پر میرے او رکام بھی ہیں پھر فیس بک بھی دیکھنا ہے اور اس کے بعد میسجنر کی باری آئے گی۔ پھر یو ٹیوب پر جو ڈرامے گذر گئے ان کی اگلی اور پچھلی قسطیں دیکھنا ہیں۔ مگر بازو والے کمرے میں بھی تو لوگ مصروف ہیں۔انھوں نے میرے بھیجے ہوئے گانے پر دو نیلے ٹک کے نشان نہیں لگائے تو میں خود اطلاع دینے دو قدم لے کر دروازے کی چوکٹھ میں کھڑاہو گیا۔کہا میں نے گانا بھیج دیا ہے۔