خاموش کردار۔۔۔۔۔

افغانستان سے امریکی افواج کا انخلأ سے متعلق اعلان پاکستان کیلئے بھی اہم ہے جس کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو خطے اور عالمی سطح پر دیگر ممالک کے مقابلے پاکستان پر اِس کا سب سے زیادہ اثر پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے صدر جوبائیڈن کی طرف سے اعلان کے بعد پاکستان نے توجہ دلائی کہ ”افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلأ کو (قیام) امن (کے) عمل سے جوڑنا ضروری ہے۔“ افغان امن کی حالیہ کوششوں کو دیکھا جائے تو پاکستان نے افغان حکومت اور دیگر فریقین کے ساتھ بات چیت کیلئے طالبان کو قائل کرنے میں خاموش مگر اہم کردار ادا کیا جن کے بغیر بین الافغان مذاکرات عملاً ممکن نہیں ہو سکتے تھے۔ دسمبر دوہزاراٹھارہ میں پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کا راستہ کھولنے میں مدد کی اور پھر قطر (دوحا مذاکرات) میں دونوں فریقین کے درمیان تاریخی امن معاہدہ (اُنتیس فروری دوہزاربیس) طے پایا۔ پاکستان ہی کی مدد سے جولائی دوہزارپندرہ میں بھی افغان حکومت اور طالبان کے مابین پہلی بار براہ راست مذاکرات ہوئے تھے۔ تاہم امن عمل کی یہ کوشش بیچ راستے اس وقت رک گئی جب طالبان نے اپنے رہنما ملا عمر کی موت کا اعلان کیا۔ قابل ذکر ہے کہ ایک نہیں بلکہ کئی مواقعوں پر امریکہ نے افغان قیام امن کے سلسلے پاکستان کے کردار کو سراہا اور اب جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی افواج افغانستان سے نکل رہے ہیں تو پاکستان بیس سالہ جنگ کے اثرات ختم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ افغان محاذ پر امریکہ کو قریب دس کھرب ڈالر اور تیئس سو سے زیادہ فوجیوں کا جانی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں۔پاکستان کی کوشش ہے کہ افغان امن کی کوششیں جاری رہیں تو چھوٹی بڑی کامیابیاں ملتی رہیں گی۔ اِس سلسلے میں دفتر خارجہ کا یہ بیان لائق توجہ ہے کہ ”افغانستان میں اَمن و اِستحکام پاکستان کے مفاد میں ہے‘ جس کیلئے بین الاقوامی برداری کے ساتھ تعاون جاری رکھا جائے گا۔“۔ افغان قیادت اور ذرائع ابلاغ کی نظریں ترکی میں ہونے والے امن مذاکرات پر ہیں۔ ترک حکام کے مطابق اِس کوشش کا مقصد جنگ کے بعد بحالی کی کوششوں کو فوراً شروع کرنا ہے تاکہ ممکنہ طور پر افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالا جا سکے۔ طالبان اس وقت امریکہ کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی پر ناخوش ہیں اور انہوں نے اجلاس میں شرکت کا اعلان نہیں کیا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ ایک مرتبہ پھر استعمال کرے اور وہ امریکی انخلأ کی کسی نئی تاریخ پر رضامندی ظاہر کریں اور اس طرح یہ یقینی بنایا جا سکے کہ بین الافغان مذاکرات ناکام نہ ہوں۔افغان طالبان اِس موقع پر ترک انٹرا افغان مذاکرات میں شمولیت کیلئے شرائط رکھ سکتے ہیں۔ وہ اپنے قیدیوں کی رہائی اور رہنماؤں کے نام بلیک لسٹ سے ہٹانے کے مطالبات پیش کر سکتے ہیں لیکن حالات یہ ہیں کہ شاید پاکستان تن تنہا طالبان کو قائل نہیں کر سکے گا جب تک دیگر فریق اِس سلسلے میں اپنا اپنا کردار ادا نہ کریں کیونکہ پاکستان کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے اور اِس کی وجہ طالبان نے تبدیل شدہ حکمت عملی ہے جسے وہ سفارتی طریقے سے آگے بڑھا رہے ہیں اور طالبان نے خود کئی ممالک سے رابطے قائم کر رکھے ہیں اور اُن کا ایک سیاسی دفتر قطر میں قائم ہے۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ اب پاکستان سے متعلق یہ سمجھنا درست نہیں کہ وہ واحد ملک ہے جو ہمیشہ طالبان پر دباؤ ڈالنے جیسا کردار ادا کرے گا۔افغان امن کوششوں اور افغانستان کے زمینی حالات سے متعلق پاکستان کے خدشات اپنی جگہ اہم ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ 1: افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کی جائے۔ 2: افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ کو محدود کیا جائے۔ 3: افغان خفیہ ادارے اور وسائل پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہوں۔ 4: افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا موضوع بھی افغان امن مذاکرات کا حصہ ہونا چاہئے تاہم جب سے امریکہ نے افغانستان سے غیرمشروط انخلأ کی بات کی ہے تو اندیشہ ہے کہ اِس سے افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔ سال اُنیس سو چھیانوے میں جب طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت بنانے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت پاکستان اُن تین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا لیکن اب صورتحال مختلف ہے کیونکہ پاکستان نے واضح الفاظ میں اظہار کیا ہے کہ وہ جنگ کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی حمایت نہیں کرے گا۔ بنیادی ضرورت اِس بات کی ہے کہ پاکستان افغانستان اور افغان حکومت پاکستان پر اعتماد کرے۔ دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور دوطرفہ تعلقات میں آئی دراڑیں ختم کی جائیں اور ہمسایہ ممالک ایک دوسرے سے جڑے اپنے مفادات کو زیادہ اہمیت دیں کیونکہ دوست تبدیل ہو سکتے ہیں ہمسایئے نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان سے امریکہ نے بہرحال نکلنا ہے اور اب اس کے لئے ممکن ہی نہیں کہ بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کو برداشت کرتے ہوئے ایک ایسے ملک میں ڈیرے ڈال دے کہ جہاں قیام نقصان ہی نقصان ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ یہاں پر امریکہ کے لئے مالی اور جانی نقصان میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے تاہم اس سلسلے میں مدنظر رکھنا ہوگا کہ امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد جو صورتحال بنی اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور قبل ازوقت ان تمام ممکنہ حالات کے لئے تیاری کرنی ہوگی جس کی توقع کی جا سکتی ہے امریکہ کے نکلنے کے بعد اگر یہاں پر حکومتی ڈھانچہ موجود نہیں یا اس کی پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے اور یہ ایک بار پھر افغانستان کو نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی میں دھکیل سکتا ہے جس کے اثرات تمام پڑوسی ممالک پر مرتب ہوں گے جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو وہ ابھی سے ایک فاتح قوت کی حیثیت سے اپنا تعارف کرانے لگے ہیں اور امریکی اخبارات میں بھی اس قسم کے تبصرے شائع ہونے لگے ہیں کہ طالبان جلد یا بدیر پورے افغانستان پر قبضہ کر سکتے ہیں اس لئے اب سب کی نظریں ترکی میں منعقد ہونے والی کانفرنس پر ہیں جہاں مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز مل بیٹھیں گے اور عین ممکن ہے کہ طالبان کو بھی تب تک راضی کیا جا سکے کہ وہ اس اہم کانفرنس میں شرکت کرے اور افغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ مل بیٹھ کر آئندہ کی حکومت میں شراکت کے حوالے سے تمام فریقین رضا مندی کا اظہار کریں صرف اسی صورت میں امریکی انخلاء خطے کے لئے مثبت پیغام لا سکتا ہے اور اس سے طویل خانہ جنگی سے تباہ حال افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔