حکومت کی جانب سے چینی کی قیمت فروخت 80 روپے فی کلوگرام مقرر تو کر دی گئی ہے لیکن اِس سرکاری نرخ پر چینی کا حصول جوئے شیر لانے کے مترداف ہے۔ سستی چینی کے لئے گھنٹوں قطار میں لگ کر قومی شناختی کارڈ کا اندراج کروانے کے بعد صرف ایک کلوگرام چینی ملنا اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے کہ سستی چینی کےلئے اِنسان کو کتنا سستا ہونا پڑا گا۔ فیصلہ سازوں اور عوام کی سوچ دو مختلف سمتوں میں پرواز کر رہی ہے۔ ایک مطمئن ہے کہ اُس کے حکم سے ملک بھر میں ”سستے بازار“ قائم ہو گئے ہیں جبکہ دوسرے کےلئے صرف چینی ہی نہیں بلکہ سبزی و دیگر بنیادی ضروریات کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جبکہ مہنگائی میں ہر دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ آمدنی میں اضافہ تو نہ ہو لیکن اخراجات بڑھتے چلے جائیں تو گھر کا خرچ کیسے پورا ہو سکتا ہے؟توجہ طلب ہے کہ رواں ماہ (اپریل دوہزار اکیس) کے آغاز پر چینی کی خوردہ قیمت اٹھانوے روپے فی کلوگرام تھی جو رمضان المبارک میں بڑھ کر سو سے ایک سو پانچ روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہونے لگی۔ تھوک (ہول سیل) میں چھیانوے روپے فی کلو گرام چینی عام صارف تک پہنچنے میں پانچ سے دس روپے فی کلو کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اِسی طرح شوگرمل کے گودام میں پڑی چینی 80 روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت ہوتی ہے جو تھوک بازار (منڈی) پہنچنے تک 96روپے فی کلو ہو جاتی ہے تو یہ درمیانی طبقہ جو منافع کما رہا ہے اگر حکومت اِس نظام کو سمجھ لے تو نہ صرف چینی بلکہ گھی سبزی پھل اور دیگر اجناس (اشیائے ضروریہ) کی قیمتوں پر باآسانی قابو پا سکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے ’پرائس کنٹرول‘ کے نظام کی تان پرچون دکاندار پر آ ٹوٹتی ہے جس کے لئے منافع کا مارجن پانچ سے دس روپے فی کلو ہے۔رمضان المبارک میں چینی کی قیمت 100سے 110روپے فی کلوگرام تک پہنچنا ’توہین عدالت‘ بھی ہے کیونکہ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں شوگر ملز کو پابند کیا کہ وہ رمضان کے مہینے میں 80روپے فی کلو کے حساب سے چینی مارکیٹ میں سپلائی کریں گے جسے عام صارف کو 85روپے فی کلو پر فروخت کرنے کے احکامات ہوا میں اُڑا دیئے گئے ہیں مگر کیا شوگر ملز چینی 80 روپے فی کلوگرام فراہم کر رہی ہیں جن کے بقول اور جن کے اپنے لگائے گئے تخمینے کے مطابق چینی کی پیداواری لاگت 90روپے فی کلو کے لگ بھگ ہے؟ چینی کی قیمت کیا ہے اور کیا ہونی چاہئے اِس سلسلے میں کاروبار سے وابستہ افراد اور شوگر ملوں کے نمائندوں کے درمیان اختلاف موجود ہے جبکہ دوسری جانب عدالتی معاملات پر نظر رکھنے والے افراد کے مطابق عدالتوں کی جانب سے ایسے فیصلوں پر عمل درآمد ماضی میں نہیں ہوا اور ان کی نظر میں آئندہ بھی اِس بات کا امکان نہیں ہے کہ صرف عدالت کے کہنے پر چینی یا کوئی بھی دوسری جنس کسی نرخ پر فروخت ہو سکے۔ المیہ ہے کہ پاکستان میں حکومت اور کاروباری طبقات کے درمیان جاری رسہ کشی کی بھی بھاری قیمت عام آدمی (ہم عوام) کو چکانا پڑ رہی ہے۔ اگرچہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی عدالت نے چینی کی قیمت مقرر کی ہو۔ اس سے قبل سال دوہزارنو میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں ایک عدالتی بنچ نے چینی کی فی کلو قیمت چالیس روپے فی کلو مقرر کی تھی تاہم اُس وقت بھی عدالتی حکم (مقرر کردہ قیمت) پر عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا اور چینی کی قیمت چالیس روپے کی بجائے اس سے دگنی قیمت پر فروخت ہونے لگی تھی اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب مقرر کردہ قیمت کے بعد چینی دوبارہ چالیس روپے فی کلو تک کبھی بھی نہیں آسکی۔ اب لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے چینی 80 روپے فی کلو فروخت کے احکامات کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک تو چینی کی قلت ہو جائے گی‘ دوسرا عدالت کی مقررکردہ قیمت پر عملدرآمد نہیں ہوگا اور تیسرا چینی کبھی بھی 80 روپے فی کلوگرام کی سطح پر نہیں آئے گی!چینی کی صنعت کا عمومی جائزہ لیا جائے تو ملک میں رواں برس (دوہزار اکیس) مارچ میں کرشنگ سیزن کے اختتام تک پچپن سے ستاون لاکھ ٹن چینی کی پیداوار ہوئی۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کا یہ بیان ’آن دی ریکارڈ‘ موجود ہے کہ گنے کے ’کرشنگ سیزن‘ میں پیداوار 55لاکھ ٹن سے زائد رہی۔ یہی اعداد و شمار شوگر ایڈوائزری بورڈ نے بھی جاری کئے تھے۔ شوگر ملوں نے کرشنگ سیزن کے آغاز پر تین سے چار لاکھ ٹن خام چینی درآمد کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ پیداوار 63 لاکھ ٹن تک بڑھائی جا سکے لیکن حکومت نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ کاشتکاروں نے گنا شوگر ملوں کو فروخت کرنے کی بجائے اِس سال زیادہ بڑی مقدار میں گڑ تیار کیا اور اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا سرفہرست رہا کہ یہاں ڈیڑھ لاکھ ٹن گنے سے گڑ بنایا گیا۔ اگر ہم چینی کی پیداوار کو ستاون لاکھ ٹن بھی مان لیں تب بھی پاکستان کی مقامی ضرورت پچپن لاکھ ٹن کی ہے اور اِس میں گزشتہ برس کی باقی ماندہ پچاس ہزار ٹن کا ذخیرہ بھی اگر شامل کر لیا جائے تو چینی کی قلت نہیں ہونی چاہئے موجودہ سال کے کرشنگ سیزن میں شوگر کی امدادی قیمت دوسو روپے فی من مقرر کی گئی جبکہ شوگر ملوں کے بقول اُنہوں نے گنا تین سو روپے فی من سے زائد قیمت پر خریدا کیونکہ کاشتکار گنا اپنی قیمت کے علاوہ فروخت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اِس صورتحال کا ایک تکنیکی پہلو یہ رہا کہ شوگر ملیں زیادہ پیداوار کر کے اسے زیادہ قیمت پر بیچنے کی منصوبہ بندی و تیاری کئے ہوئے تھیں جس میں مستقبل کے سودے اور افواہوں پر چینی کی قیمت بڑھانے والے مافیا کا عمل دخل تھا جو چینی کی قیمت سٹے کے ذریعے بڑھانے پر قدرت رکھتی ہے۔ اگر شوگر ملوں نے زیادہ مہنگے داموں گنا خریدا تو اس میں ان کا قصور تھا کیونکہ حکومت نے تو گنے کی قیمت کم مقرر کی تھی۔ اب مہنگا گنا خریدنے سے پیداواری لاگت بڑھی ہے تو اس میں حکومت یا صارفین (ہم عوام) کا قصور نہیں ہے۔