باالآخر امریکی صدر جو بائیڈن نے اس سال گیارہ ستمبر 2021 یعنی امریکہ پر حملوں کی بیسویں ویں برسی تک افغانستان سے تمام فوجی دستوں کی مرحلہ وار واپسی کا اعلان کردیا ہے۔افغان صدر نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور ہموار انتقال اقتدار کو یقینی بنانے کےلئے اپنے امریکی ساتھیوں کے ساتھ کام کریں گے۔ ادھر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ "اگر دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی اور غیر ملکی افواج یکم مئی تک ہمارے ملک سے باہر نہ گئیں تو یقیناً ان کی مشکلات دگنی ہوجائیں گی اور جو لوگ اس معاہدے کی تعمیل میں ناکام رہے ہیں وہ اس کے ذمہ دار ہوں گے"۔ طالبان کے انتباہ کے بعد خدشہ ہے غیر ملکی افواج کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ طالبان اب بہار کا حملہ زور وشور سے شروع کریں گے۔امریکہ کے بعد اب نیٹو کے ممالک بھی گیارہ ستمبر تک یہاں سے اپنی افواج نکال لیں گے۔ افعانستان میں اس وقت امریکہ کے 3500 اور نیٹو کے تقریباً آٹھ ہزار افواج کے علاوہ 18000حفاظتی ٹھیکیدار موجود ہیں ۔اگرچہ صدر غنی نے کہا ہے افغانستان کی فوج و پولیس اپنے عوام اور ملک کا دفاع کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں لیکن اس سال ایک امریکی انٹلی جنس رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر طالبان اور افغان حکومت کے مابین مستقبل کے نظامِ حکومت پر کسی معاہدے سے پہلے امریکی فوجیں نکل گئیں تو افغانستان دو تین سال کے اندر طالبان کے قبضے میں چلا جائےگا اس وجہ سے امریکہ کی اولین ترجیح افغانستان میں امن کا قیام تھا تاکہ وہ اطمینان سے اپنی فوجوں کو باہر نکالے چنانچہ وہ جامع بین الافغان معاہدے، جنگ بندی اور عبوری حکومت کے قیام کےلئے کوشش کررہا تھا لیکن ان حوالوں سے حالات امید افزا نہیں رہے۔ مذاکرات میں یوں بھی جلد کسی بڑی کامیابی کا امکان کم ہے کیوں کہ فریقین کے درمیان متنازعہ مسائل کی فہرست طویل ہے جبکہ ان کے درمیان اعتماد اور رواداری کا فقدان ہے۔ پھر حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ نائب صدر عبداللہ عبداللہ اور افغان صدر کے درمیان بھی ترجیحات میں اختلافات موجود ہیں۔اگرچہ فروری 2020 کے امریکہ طالبان معاہدے میں انخلاءکو بین الافغان معاہدے سے مشروط کیا گیا تھا لیکن جب طالبان اور افغان حکومت کو پیش کردہ امن معاہدے کے مسودے میں امریکہ نے اپنی فوجوں کی واپسی کو کسی معاہدے سے مشروط نہیں کیا تو صاف دکھائی دے رہا تھا کہ امریکہ یہاں سے ہر حال میں انخلاءکرنے پر تلا ہوا ہے۔فروری 2020 کے طالبان امریکہ معاہدے کے برعکس بائیڈن کا اعلانِ انخلا زمینی حالات پر مبنی نہیں ہے۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ " افغانستان میں ہم اپنا چکر جاری نہیں رکھ سکتے۔ اگر امریکہ افغانستان سے انخلا کو زمینی حالات سے مشروط کرنا چاہے تو ہمیں مندرجہ ذیل سوالوں کے واضح جوابات دینے ہوں گے: وہ کون سے زمینی حالات ہیں جن کے حصول کے بعد ہمارے لیے انخلاءجائز ہوگا؟ ان حالات کے حصول کے لیے کون سے ذرائع اور کتنا وقت درکار ہوگا؟ کیا ان کا حصول ممکن بھی ہے؟ اور کتنے جانوں اور پیسوں کی قیمت پر؟ مجھے ان سوالوں کا کوئی اچھا جواب نہیں ملا۔ اور اگر کوئی ان کے جوابات نہیں دے سکتا تو میرے خیال میں ہمیں وہاں نہیں رہنا چاہئے۔"امن معاہدے کے بغیر امریکی افواج کے انخلا کا مطلب یہ ہوگا کہ اب افغانستان میں عسکری طاقت بنیادی عامل ہوگی۔ اس میںطالبان اور دیگر عسکری گروہوں کےلئے بڑی کامیابیاں سمیٹنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔امریکہ کی طرف سے انخلاءکی حتمی تاریخ گیارہ ستمبر مقرر کرنے کا فیصلہ بھی معنی خیز ہے۔ اس تاریخ کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور امریکی محکمہ دفاع کی عمارت پر حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کا فیصلہ کیا تھا۔ بیس سال بعد اسی تاریخ کو افغانستان سے غیر مشروط انخلا کا اعلان یہ کہہ کر کرنے کے بعد کہ "افغان مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں اور یہ مسئلہ بات چیت سے پرامن انداز میں حل کیا جانا چاہیے" گویا امریکہ نے اپنی ناکامی اور طالبان کی فتح کا اعلان کردیا ہے۔ امریکہ کہتا تھا یہ جنگ دہشت گردی ختم کرنے، افغانستان میں جمہوریت قائم کرنے، منشیات کی پیداوار ختم کرنے، عورتوں کو آزادی دینے اور خطے میں ایک دوست حکومت بنانے کےلئے ہے لیکن آج ان سب امور پر کامیابی کا دعویٰ مشکل ہے۔ طالبان کے دور میں اگر منشیات کی پیداوار چھ صوبوں میں ہورہی تھی تو غیرملکی قبضے کے بعد یہ اٹھائیس تک پھیل گئی۔امریکہ کی طرف سے اربوں ڈالرز خرچ کرنے اور کئی ہزار اتحادی افواج کی ہلاکتوں کے باوجود اس کا قبضہ افغانستان میں باالعموم اور اس کے دیہات میں خاص طور ترقی اور خوشحالی کی بجائے مہلک فضائی حملوں، اندھا دھند قتل وغارت، من مانی نظربندیوں اور رات کے چھاپوں کےلئے مشہور رہا ہے۔امریکہ نے جنگ، حکومت کی تشکیل ، فوج کی تعمیر اور انفراسٹرکچر منصوبوں کی مالی اعانت کےلئے 2001 کے بعد سے افغانستان پر لگ بھگ دو کھرب ڈالر خرچ کیے ہیں لیکن بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور ضیاع کی شکایات سامنے آئیں۔ امریکہ نے بدعنوانی سے آنکھیں بند رکھیں۔ یوں اربوں ڈالرز کی بین الاقوامی امداد ضرورت مندوں پر خرچ ہونے کی بجائے مبینہ طور پر اشرافیہ کی جیبوں میں گئی ۔