طریقہئ واردات۔۔۔۔

مہنگائی کنٹرول کرنے کی جملہ کوششیں اِس لئے بھی ناکام اور ناکافی رہتی ہیں کیونکہ ماہ  رمضان المبارک کا ناجائز فائدہ اُٹھانے والے منافع خور اِس کاروباری موقع کیلئے سارا سال تیاری اور منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اِن سے وقتی ہنگامی اقدامات کے ذریعے نمٹنا ممکن نہیں۔ ضلعی انتظامیہ کو بھی اُتنا ہی شاطر ہونا پڑے گا جس قدر  کچھ کاروباری طبقات ہیں اور اُن کا طریقہئ واردات ’کولڈ سٹوریجز‘ سے گوداموں تک پھیلا ہوا ہے۔ کسی بھی شہر کی مرکزی سبزی منڈی اور مرکزی فروٹ منڈی میں کاروباری طور طریقوں کو سمجھنے کیلئے مطالعے کی ضرورت ہے جہاں سب کچھ بظاہر شفاف اور کاروباری اصولوں کے مطابق ہو رہا ہوتا ہے لیکن مہنگائی کا مسئلہ اگر حل ہو سکتا ہے تو وہ یہی مقام ہے جہاں سے راستے کولڈ سٹوریجز اور خفیہ گوداموں تک جاتے ہیں۔ کولڈ سٹوریجزکے خلاف کاروائی کی جائے جیسا کہ صرف ایک مرتبہ دیکھنے میں آئی تھی تو لیموں تین سو روپے فی کلو سے کم ہو کر ایک سو بیس روپے پر آ گئے تھے جبکہ کیلا جو کہ ڈھائی سو روپے فی درجن تھا ساٹھ روپے درجن ہو گیا تھا اور دیگر پھل سبزی کی قیمتیں بھی اعتدال پر آ گئی تھیں مطالعہ کیا جائے اور غور کیاجائے تو منافع خوری کا طریقہ واردات معلوم ہوسکتا ہے لیکن اس کھیل کی ابتدا علی الصبح منڈیوں سے ہوتی ہے۔ ٹرکوں  ٹرالیوں اور بعض اوقات ریڑھوں پر لدی اشیائے صرف‘سبزی اور پھل رات بھر منڈی میں آڑھتیوں کے ٹھکانوں پر پہنچتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد دن روشن ہونے سے قبل (منہ اندھیرے) منڈیوں کی کمیٹیاں اپنا کھیل شروع کر دیتی ہیں اور یہ لوگ نرخوں کا تعین کرتے ہیں۔ قیمت خرید پر دس فیصد منافع تو جائز اور ضروری ہے لیکن یہاں معیشت کے اصول مختلف ہیں۔ ان کے ہاں منافع کی شرح عام طور پر تیس فیصد سے شروع ہو کر پچاس فیصد تک اور بعض مخصوص مواقعوں پر اس سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے اور بازار میں مہنگائی کا نکتہ آغاز یہی ہے۔ مارکیٹ کمیٹیوں کے نظام اور اس کی تاریخ کو سمجھنے والے بتاتے ہیں کہ انتہاؤں کو چھوتی ہوئی مہنگائی کے موجودہ بحران کو سمجھنے کیلئے اس روایتی نظام کی تاریخ اور ماضی میں متعلقہ قوانین میں تبدیلیوں سے آگاہی ناگزیر ہے۔سال 2001ء تک مارکیٹ کمیٹیوں کا نظام اور بازار میں قیمتوں کے تعین پر نگرانی کی ذمہ داری براہ راست ضلعی انتظامیہ کے ہاتھ میں تھی  لیکن جنرل مشرف نے جب اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے نام پر اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا تو ضلعی انتظامیہ کے اختیارات میں بڑی حد تک کمی واقع ہو گئی کیونکہ ضلعی انتظامیہ کو حاصل اختیارات ان سے واپس لے کر عدلیہ کے سپرد کر دیئے گئے۔ اس طرح پہلے مارکیٹ کمیٹیوں کی نگرانی کے اختیارات جو ضلعی انتظامیہ کے پاس تھے اب وہ سول جج کے پاس گئے اور یہیں سے بحران کا آغاز ہوا۔ بحران اس لئے پیدا ہوا کہ مہنگائی اور منافع خوری پر قابو پانے کے اختیارات تو عدلیہ کو منتقل ہو گئے لیکن یہ ادارہ انتظامیہ کی طرح بازاروں کی نگرانی کس طرح کرے گا؟ اس سلسلے میں کوئی نیا نظام (میکنزم) تیار نہیں کیا گیا جبکہ ضلعی انتظامیہ کے اختیارات میں کمی کے ساتھ ہی پرانے نظام کا خاتمہ ہو گیا۔ نظام کے اس خلا کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2001ء سے سال 2004ء تک منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے سدباب کے سلسلے میں کوئی ایک مقدمہ بھی درج نہ کیا جا سکا لہٰذا کسی عدالتی کاروائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مذکورہ چار برس کے دوران یعنی جنرل مشرف کے دور اقتدار میں ہی یہ خلا اتنا بڑا مسئلہ بن گیا کہ خود ان ہی کے زیر سایہ کام کرنے والی مسلم لیگ قائد اعظم کی حکومت نے کوڈ آف کریمنل پروسیجر (سی آر سی پی سی) میں ترمیم کر کے اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ کے اختیارات کسی حد تک بحال کر دیئے لیکن ان کے ساتھ ہی بعض دیگر محکموں کو بھی اس کام کا ذمہ دار بنا دیا گیا جن میں محکمہ زراعت کا ایک شعبہ‘ محکمہ لائیو سٹاک‘ محکمہ ماحولیات‘ محکمہ خوارک اور بلدیاتی اداروں کے علاوہ خود مارکیٹ کمیٹیاں یعنیمنڈی کے منتخب نمائندے بھی شامل تھے۔ اب یہ تمام ادارے اپنے اپنے انداز اور مزاج کے مطابق ”مل جل کر“ کام کرتے ہیں۔ تین چار برس کے عرصے میں بازار میں متحرک فورسز کے بے قابو ہو جانے کے تلخ تجربے کے بعد قانون میں تبدیلی ضرور کی گئی جس کے نتیجے میں ایک  ادھوراا نظام بھی رفتہ رفتہ وجود میں آ گیا لیکن اس عرصے کے درمیان میں نظام کا جو خلا پیدا ہو گیا تھا اس کہ وجہ سے مارکیٹ کی نگرانی کرنیوالے نئے نظام کی رٹ قائم نہ ہو سکی۔ موجودہ نظام کی اس کمزوری میں کئی دیگر عوامل بھی اہمیت رکھتے ہیں‘ پرانے نظام کا موجودہ نظام سے موازنہ کر کے انھیں سمجھا جا سکتا ہے۔ پرانے نظام کے تحت ڈپٹی کمشنر‘ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر منڈیوں سے متعلق امور میں مؤثر تھے‘ اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اگر وہ مہنگائی کی اطلاع ملنے پر بازار میں نکل پڑتے تو اس کے نتیجے میں قیمتیں عام طور پر پچیس سے تیس فیصد کم ہو جاتیں کیونکہ ان اہلکاروں کو فوری جرمانہ کرنے یا جرم کی نوعیت کے پیش نظر گراں گروشوں کو قید کر دینے کا اختیار حاصل تھا۔ یہ ان ہی اختیارات کا نتیجہ تھا کہ سبزی فروش‘ کریانہ مرچنٹ‘ قصاب یا ضروریات زندگی فروخت کرنے والا کوئی بھی دکان دار حدود سے تجاوز کرنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔ منڈیوں کو کنٹرول کرنے کے موجودہ نظام کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ پولیس ضلعی انتظامیہ کے ماتحت نہیں رہی اور اگر پولیس تعاون نہ کرے تو تنہا ضلعی انتظامیہ کیا کر سکتی ہے؟۔ نئے نظام کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ سول انتظامیہ ہو یا دیگر محکموں کے اہلکار 2001ء سے 2004ء تک کے خلا کے باعث مہنگائی کنٹرول کرنے جیسی اہم ذمہ داری کیلئے ماضی کے مقابلے میں کم اہلیت و تربیت رکھتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کو مہنگائی کے مسئلہ حل کرنے کیلئے مارکیٹ کمیٹیوں (منڈیوں کے نمائندہ تاجروں) کی تشکیل (و انتخاب) کے طریقہ کار کی اصلاح کرنا ہوگی جہاں بہتری کی گنجائش موجود ہے اور سب بڑی بہتری یہ ہوگی کہ ہول سیل (تھوک) ہوں یا پرچون‘ منڈیوں میں صارفین کو بھی نمائندگی دی جائے۔