ادبیات سر حد میں امیرحمزہ خان شنواری کا بڑانا م ہے انہوں نے ایک نظم میں کھلو نوں کے حوالے سے بچوں کی نفسیات کا جا ئز ہ لیا ہے نظم کا نام ”لٹون“ہے جوان کی کلیات میں چھپ گئی ہے مجھے یہ نظم شا عر کی زبا ن سے سننے کا شرف حا صل رہا ہے وزارت اطلا عات کے بارڈر پبلسٹی ار گنا ئزیشن کا دفتر ڈبگری گارڈن میں ہوا کر تا تھا اس دفتر سے پشتو کا ادبی پر چہ جمہور اسلا م نکلتا تھا خیبر ایجنسی کیلئے الگ مجلہ کاروان بھی اس دفتر سے شائع ہو تا تھا عنا یت اللہ ریا ض کے دور میں دفترکے اندر ادیبوں اور شاعروں کی دعوتیں ہو تی تھیں اچھی خا صی ادبی محفلیں جمتی تھیں ایسی ہی ایک محفل حمزہ با با کے ساتھ ہوئی‘عظیم افریدی نے فو ن کھڑ کا کر ہم کو بلا یا عالمزیب خٹک، قا ضی اعجا ز،یو سف شہزاد، محمد اسلام ارما نی محمد نثار خا ن شریک محفل تھے ا‘دبی پر چوں کے معیار پر گفتگو ہوئی امیر حمزہ شنواری نے کہا معیار کا تعلق مجلس ادارت کے شوق اور ذوق سے ہے ادبی پر چہ مدیر اور نا ئب مدیر کے نا م سے پہچا نا جا تا ہے مدیر چُن چُن کر ادیبوں، شاعروں اور نثر نگا روں سے رابطہ کر کے ان کی نگارشات حا صل کر تا ہے مدیر اگر ہا تھ پر ہاتھ دھر ے بیٹھ جا ئے تو خود بخود ڈاک میں آنے والا مواد معیاری نہیں ہو تا انہوں نے ”قند“ کا حوالہ دیا جس کیلئے پورے بر صغیر کے نا مور ادیبوں اور شاعروں سے رابطہ کر کے معیاری مو اد حاصل کیا جا تا تھا اور مر دان سے شائع ہونے والا پر چہ پشاور سے دہلی اور ڈھا کہ تک اپنی پہچان بنا چکا تھا عظیم آفریدی نے کہا جمہور اسلا م اور کاروان کی ایک پا لیسی ہے ہم کو اس پالیسی پر چلنا ہو تا ہے پا لیسی کے اندر رہتے ہوئے ہم ادبی معیا ر پر پورا اتر نے کیلئے آپ جیسی عظیم شخصیات کے ساتھ ہر وقت رابطے میں رہتے ہیں عنایت اللہ ریاض نے بات کا رُخ پشاور کی ادبی تاریخ کی طرف موڑ تے ہوئے کہا وہ کیا دور ہو گا جب خیبر بازار میں دوست محمد کامل اور آپ مل کر ادبی سر گرمیوں کی میز با نی کرتے تھے آپ کی حیثیت شمع محفل کی تھی نو جواں ادیب اور شعراء پروانوں کی طرح شمع کے گرد طواف کر تے تھے حمزہ با با نے کہادُکھتی رگوں کو چھیڑ نا تمہیں آتا ہے اس دور کا ذکر میری کمزوری ہے ہماری جوا نی کے دن تھے تحریک آزادی کے عروج کا دور تھا با چا خا ن کا مجلہ پختون نو جو انوں کے دلوں کو گر ما تا تھا‘ دوست محمد کا مل پختونوں کی تاریخ پر کا م کر تے تھے وکالت کے ساتھ تحقیقی کا م بڑا مشکل تھا مگر وہ نبا ہتے تھے میں نے اُس دور میں علا مہ اقبال کے کلا م کا پشتو میں منظوم تر جمہ کیا‘پشاور کا ریڈیو واحد مقام تھا جہاں نئی تخلیقات کو پیش کر نے کا مو قع ملتا تھا ہم اپنے با لا خا نے پر ادبی محفلیں اور تنقیدی مجلسیں بھی منعقد کر تے تھے عبد الخا لق خلیق کا ادارہ اشاعت سر حد پشتو کی نئی تخلیقات کو شائع کرتا تھا خلیق خو د بھی خو ب صورت نثر لکھتے تھے عظیم آفریدی نے حمزہ با با کی نئی نظم لٹون کا ذکر چھیڑ دیا، حمزہ با با نے کہا یہ بھی کا فی پرانی نظم ہے بچوں کی نفسیات پر ہے تا ہم اس میں بڑوں کیلئے بھی فکر اور سوچ کے کئی زاویے ہیں حمزہ بابا سے نظم سنا نے کی فر ما ئش کی گئی چنا نچہ انہوں نے کمال مہر با نی اور شفقت سے اپنی نظم سنا ئی نظم کا ایک بند اب تک مجھے یا د ہے کالم کے دامن کو دیکھ کر اردو تر جمے پر اکتفا کر تا ہوں بند کا تر جمہ یہ ہے ”روز نئے نئے بت ترا شتا ہوں،تراشنے کے بعد دیکھتا ہوں مجھے اچھے لگتے ہیں مگر میرا دل بچے کی طرح ہے کچھ ہی دیر میں بیزا ر ہو جا تا ہے جب بیزار ہو تا ہے تو پر انے بُت توڑ دیتا ہوں اور نئے بت تراشنے میں محو ہو جاتا ہوں تمہارا خیال ہو گا کہ یہ محض خیال ہے ایسا ہر گز نہیں یہ تلا ش ہے جو مسلسل جار ی ہے“ ”لٹون“ پشتو میں تلا ش کو کہتے ہیں نظم میں ٹیپ کا بند بھی یہی ہے ”شا ید چہ دا لٹون دے“ ابھی مجلس جاری تھی جڑوبہ نو شہرہ کے نا بینا شاعر عبد الستار عارف خٹک بھی شریک محفل ہوئے مشروبات و ما کولات کا دور چلا اس کے بعد رفیق شنواری اپنی گاڑی لیکر آگئے اور حمزہ با با لواڑگی جا نے کیلئے گاڑی میں بیٹھ گئے ستمبر 1976کی یہ مجلس آج ڈاکٹر قابل خا ن آفریدی کی کتاب”حمزہ با با:زندگی اور کارنا مے“ دیکھ کر یا د آگئی سو چا قارئین کو شریک گفتگو کر لوں شاید کھلو نے کچھ ہمیں بہلا سکیں۔