خیبرپختونخوا کی قانون ساز اسمبلی نے سرکاری ملازمین سے متعلق قانون میں ترمیم کی ہے جس کے تحت سرکاری ملازمت کی حد جو کہ سال 2019-20ء کا بجٹ پیش کرنے کے موقع پر ساٹھ سال سے تریسٹھ سال کر دی گئی تھی اُسے واپس ساٹھ سال کر دیا گیا ہے۔ محرک یہ تھا کہ مدت ملازمت میں تین سال کے اضافے سے حکومت کو ہر سال 20 ارب روپے کا (مالی) فائدہ ہوگا لیکن مذکورہ ترمیم کے خلاف ملازمین نے عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) سے رجوع کیا اور ملازمتی مدت بڑھانے کے خلاف فیصلہ حاصل کر لیا جسکے بعد صوبائی حکومت کو سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت کے قانون میں ترمیم کرنا پڑی۔ قانون سازی میں جلدبازی کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اِسے فوراً یا پھر آئندہ دور حکومت میں تبدیل (ترمیم) کرنا پڑتا ہے اور یہ دونوں صورتیں قانون سازی کیلئے درکار مثبت روئیوں کی عکاس نہیں۔پارلیمانی جمہوریت میں قانون سازی کا عمل عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کا ایوان عددی اکثریت کی بنیاد پر کرتا ہے۔ جمہوری طرزحکمرانی متعارف کروانے والے ممالک میں قانون سازی کے عمل کا طریقہئ کار یہی ہے لیکن وہاں کسی قانون یا اُس میں ترمیم سے قبل دن‘ ہفتے اور مہینے نہیں بلکہ سالہا سال غوروخوض اور قومی سطح پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے‘ یہاں تک کہ یونین کونسلوں (کاؤنٹیز) کی سطح پر منتخب ہونے والوں سے بھی رائے طلب کی جاتی ہے اور ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے مضامین سے بھی حمایتی اور اختلافی رائے اخذ کرکے اُسے یکساں اہمیت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت ایک ایسا یک طرفہ طرزفکروعمل ہے‘ جسے اگرچہ ’قانون کی حمایت (پشت پناہی)‘ حاصل ہے لیکن اِس میں قانون ساز ایوان کے اراکین کے علاوہ کسی دوسرے شعبے سے رائے (input) لینے کی روایت موجود نہیں اور یوں ہمارے ہاں جمہوری طرز حکمرانی ایک ہاتھ سے بجنے والی تالی ہے‘ جس کی گونج ایوان کے اندر ہی دم توڑ دیتی ہے اور اِس کی کارکردگی سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری نہیں آ رہی۔ قوانین میں موجود سقم اپنی جگہ توجہ طلب ہیں جن میں تبدیلی اور عام آدمی کی زندگی میں سہولت بارے عام انتخابات سے قبل بلند بانگ دعوے کئے گئے‘ جنہیں ہنوز پورا ہونا باقی ہے‘ صوبائی حکومت نے ترمیم لانے کا فیصلہ کیا جو ایک درست اقدام ہے۔ ایسے بہت سے مسائل موجود ہیں جن کی وجہ سے عام آدمی مشکلات سے دوچار ہے‘صوبائی کابینہ کو احساس کرنا ہوگا کہ اِن کی آئینی مدت کا باقی ماندہ عرصہ اِس قدر باقی نہیں رہا جس قدر گزر چکا ہے اور وقت ہی سب سے قیمتی جنس ہے‘ جو تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔مدت ملازمت میں اضافے سے متعلق قانون سازی کی مخالفت پولیس اور محکمہئ تعلیم کے ملازمین کی جانب سے زیادہ دیکھنے میں آئی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والی نوجوانوں کی تنظیم (یوتھ ونگ) کی جانب سے بھی مخالفت کی گئی تھی کیونکہ ایک رائے یہ سامنے آئی تھی کہ مدت ملازمت میں تین برس کے اضافے سے ملازمتی مواقعوں میں کمی آئے گی جس کے بعد یہ نتیجہ تعجب خیز نہیں ہوگا کہ پہلے سے موجود بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہو۔ جمہوری طرز حکمرانی کو ایک ہاتھ کی تالی سے دو ہاتھوں کی تالی بنانا ہوگا تاکہ اُس عام آدمی کی توقعات پر پورا اُترا جا سکے جس نے تبدیلی کے وعدے پر اعتبار کیا کیونکہ امکان موجود ہے لیکن بہتری کا امکان عام آدمی (ہم عوام) کی کمزوری (مجبوری) نہیں ہونا چاہئے۔ سمجھنا ہوگا اور سمجھانا ہوگا کہ حسن عمل بھی ایک خوبی ہے۔ قانون سازی ہو یا کسی قانون میں ترمیم کے ذریعے جامعیت کی کوشش‘ ہر مرحلے کے تقاضے اور ضروریات کا احساس بھی جمہوریت کا جز اور حسن ہوتا ہے۔