یوں تو پورا سال بھی اس کام کے لئے مخصوص کر دیں تو کم ہے۔ مگر ماہِ رمضان میں اس پر توجہ ضرور دینی چاہئے۔ یہ کام انسان سازی ہے۔ انسان سازی یہ بھی ہے کہ انسان کو اس کے حقوق کے متعلق آگاہی دی جائے۔ بندے کو پتا ہو کہ اس معاشرے میں رہتے ہوئے اس کے کیا حقوق ہیں۔ مگر صرف حقوق بارے آگاہی کا ہونا درست نہ ہوگا۔ اس کو یہ بھی علم ہو کہ اس کے فرائض کیا ہیں۔ اگر فرائض کے متعلق بھی اس کوجانکاری حاصل ہو تو کیا بات ہے۔ یہ تو مہاکاج والی بات ہے اور ایک پنتھ دو کاج پھر سونے پہ سہاگہ۔جس کو اپنے حقوق کا پتا ہو اس کو فرائض کا بھی پتا ہوگا۔ یہ ایک خودکار سسٹم ہے کہ اگر حقوق کے متعلق معلومات ہوں تو خود بخود ایک شہری کو فرائض کے بارے میں بھی معلوم ہو جائے گا۔ ہزار سال پہلے مولانا رومی بغداد میں دن کو سورج کی روشنی میں چراغ لے کر سرعام گھوم رہے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ چراغ تو رات کو جلتاہے۔ انھوں نے جواب دیا میں انسان کو ڈھونڈ رہاہوں۔ایک بار دیوجانس کلبی بازار میں کھلے بندوں روشن مشعل لے کر ہزاروں برس پیچھے یونان کے دور میں دن کے وقت جارہے تھے۔ لوگ حیران ہوئے کہ روشنی میں مشعل لے کر جانا بھلا کیا معنی رکھتا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں کسی انسان کی تلاش میں ہوں۔آدمی تو مل جائیں گے مگر انسان ڈھونڈے سے نہ ملے گا۔ ملے تو کم کم ملے گا۔ظاہر ہے کہ انسان وہی ہوگا جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں گے۔جس کو انسانی ہمدردی حاصل ہوگی۔ جس کو دوسرے انسان کا درد حاصل ہوگا۔ اس لئے کہ جب اس کو اپنے درد کا احساس ہوگا اس لئے وہ دوسرے کے درد کو بھی سمجھتا ہوگا۔صرف اپنے بہن بھائی او راپنے ہی بیوی بچوں کو نہیں دیکھے گا۔ بلکہ دوسرے کے بچوں کو بھی اپنا سمجھے گا اور دوسرے کے بہن بھائی بھی اس کو اپنے محسوس ہوں گے۔ان دنوں تو اس پراجیکٹ پر خاص کام ہو سکتا ہے۔کیونکہ رمضان کا مہینہ ہے اور عام لوگوں کا دھیان بھی عبادات کی طرف رہتا ہے۔دوسرے انسانوں کے درد کی آگاہی بھی تو اپنا ہی درد ہے۔اقبال نے فرمایا”خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے۔میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا“۔جو کسی دوسرے کو اپنا جانے تو اس کو صحیح معنوں میں انسان کہلائے جانے کا حق ہے۔ اگر کسی کے ساتھ اچھا کرنا چاہتے ہوتو اسی زمین پر کہ جس پر ہمارے پاؤں چپکے ہیں کسی کے کام آجاؤ۔ وگرنہ تو قیامت کے روز اس جہان میں ماں خود بیٹے کے کام نہیں آسکے گی۔رمضان میں راشن کی تقسیم کے لئے بہت سی تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں۔ اس کے علاوہ خود بہت سے نیک انسان اس کام سے ذاتی طور پر وابستہ ہیں۔ جن کے نام یہاں لکھنا ان کی خواہش کے برخلاف ہوگا۔ مگر ان کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ”بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر۔ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں“۔یہی وہ لوگ ہیں کہ جن سے زمانے کی رونق ہے۔پشاور میں المبارک ٹرسٹ بھی انھیں میں سے ایک ہے۔وقار اعوان بھی ایک تنظیم چلاتے ہیں۔اس طرح کی بہت سی انجمنیں اور بہت سے نیک حضرات ہیں جن میں خواتین بھی ہیں جو بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتی ہیں۔چپکے سے جا کر محتاجوں او رغریبوں اور بیواؤں کی مدد کرآتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ فرشتہ سیرت لوگ نہ ہوں تو ہمارے معاشرے کے سر پر سے چادر ہی چھن جائے۔یہ آبرو جو سلامت ہے یہ انھیں کے دم قدم سے ہے۔ہر کام جو نیک ہے وہ ہمارے معاشرے کی برائیوں کے خاتمے کیلئے کم سے کم ہے۔نیکی کے کام زیادہ سے زیادہ ہونے چاہئیں۔ نیکی کے کاموں کی ہزار قسمیں ہیں۔ہر طرح کے وہ کام جن میں انسانوں کی بہتری ہے کئے جا سکتے ہیں۔یہا ں جن کی تفصیل لکھنا اس وقت ناممکن ہے۔انسان سازی ہر دور میں مشکل ترین کام رہا ہے۔کیونکہ انسان جہا ں اچھائیاں لے کر پیدا ہوا ہے وہاں برائیاں بھی اسی آدمی ہی سے نکلتی ہیں۔ آدمی جہاں کہیں دنیا کے جس کونے میں ہوگا وہاں خرابیاں بھی ہوں گی اور اچھائی بھی برابر پائی جائے گی۔ مگر ہمارا مقصد انسان کی انسانیت اور دوسروں سے ہمدردی کو فروغ دینا ہے۔ ترازو کے پلڑوں میں نیکی اور برائی کو برابر نہیں کرنا بلکہ نیک کاموں کا پلڑا بھاری کر کے بتلانا ہے۔وہ بھی کیا زندگی ہے جو کسی کے کام نہ آ سکے۔ اس طرح تو جیناکہ اپنے لئے زندہ رہا جائے آسان ہے۔مگردوسروں کو بھی ساتھ لے چلا جائے یہ کارِ گراں ہے بلکہ خود غرضی کے اس زمانے میں کوہِ گراں ہے۔مگر تب سے لے کر اب تک نیکی کے کاموں میں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔پھر آنے والے زمانے میں بھی یہ لوگ اپنا کام کرتے رہیں گے۔ لیکن مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کو لیں جس میں خرابیوں کا وجود بہت زیادہ ہے معاشرتی بھلائی کے کام یہاں بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔اگر زیادہ سے زیادہ ہوں تو معاشرے کی فلاح زیادہ ہو۔ ہرکام ریاست پر چھوڑنا درست نہیں۔