ٹیم گرین کی فتوحات کا سلسلہ جنوبی افریقہ کے بعد زمبابوے میں بھی جاری ہے جبکہ بابر اعظم عالمی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جن کی ٹی ٹوئنٹی عالمی درجہ بندی (رینکنگ) میں بہتری آئی ہے تاہم اگر وہ زمبابوے میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ جاری رکھیں تو پہلے درجے پر فائز ہو سکتے ہیں۔ بابر اعظم کے ساتھ فخر زمان‘ رضوان اور شاہین شاہ آفریدی کی رینکنگ میں بھی بہتری خوش آئند ہے تاہم شائقین کی نظریں بابر اعظم پر ٹکی ہیں جو اگر زمبابوے کے خلاف سیریز میں بہترین کھیل (حسب توقع) پیش کریں تو عالمی نمبر ایک کے منصب پر فائز ہو سکتے ہیں۔ بابراعظم کی ترقی کے نتیجے میں آسٹریلیا کے ایرون فنچ ایک درجہ تنزلی کے بعد تیسرے نمبر پر پہنچ گئے ہیں جبکہ رضوان کو بھی بہترین کارکردگی کا انعام مل گیا اور آٹھ درجے ترقی کے بعد وہ کیریئر کی بہترین پندرھویں پوزیشن پر پہنچ چکے ہیں۔ فخر زمان نے سترہ درجے ترقی کی چھلانگ لگائی ہے اور وہ 33ویں نمبر پر فائز ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی کی عالمی رینکنگ بھی بہتری ہوئی ہے اور وہ بھی کیریئر کا بہترین گیارہواں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ درجات میں بہتری بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ٹیم گرین کے صرف کپتان ہی نہیں بلکہ دیگر کھلاڑیوں کے ستارے چمک اُٹھے ہیں۔ تجزیہ کار اور میزبان ٹیمیں حیران ہیں جیساکہ شان ولیمز کا خیال تھا کہ سہ پہر میں ہرارے سپورٹس کلب کی وکٹ بیٹنگ کیلئے آسان ہو جائے گی۔ اسی لئے انہوں نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا۔ جنوبی افریقی وکٹوں کی نسبت زمبابوے کی وکٹس پر باؤنس کم تھا اور پاکستانی بلے بازوں کیلئے اس سے ہم آہنگ ہونا کافی دشوار تھا۔ یہی وہ بہترین موقع تھا کہ شان ولیمز کی پوری ٹیم ایک جتھے کی طرح اپوزیشن پہ پل پڑتی۔ کسی بھی لحاظ سے کوئی کسر نہ چھوڑتی اور انڈر پریشر مڈل آرڈر کو پوری طرح آشکار کر دیتی۔ کوئی اضافی رن نہ دیا جاتا۔ کوئی کیچ‘ کوئی چانس ہاتھ سے جانے نہ دیا جاتا کیونکہ ایک ہی دن پہلے تو ولیمز کہہ رہے تھے کہ دباؤ تو محض غیر مرئی چیز ہے اور اس پہ قابو پانا ہی اصل کام ہے۔ اگر وہ پریشر پہ قابو پانا سیکھ جاتے تو یہ ان کیلئے سیریز کا خوابناک آغاز ہو سکتا تھا۔ کرکٹ میں تو یہ محاورہ سدا سے مستعمل رہا ہے کہ وہی ٹیم کامیاب ہوتی ہے جو زیادہ کیچ پکڑتی ہے یعنی ’کیچز ہی میچ جتواتے ہیں۔ زمبابوین ٹیم نے اہم ترین مواقع پہ اہم ترین کیچز ڈراپ کئے۔ علاوہ ازیں بیس اُوورز کی اننگز میں پندرہ ایکسٹرا رنز دیئے گئے اور پاکستان ٹیم کیلئے یہ اضافی رنز کسی تحفے سے کم نہیں تھے۔پاکستانی مڈل آرڈر حسب ِمعمول ایک بار پھر بُری طرح آشکار ہوا۔ زمبابوین باؤلنگ میں خوبی یہ رہی کہ ولیمز نے کسی بھی باؤلر سے لمبا سپیل نہیں کروایا بلکہ پے در پے اینڈ تبدیل کرتے رہے اور پاکستانی بلے بازوں کیلئے وکٹ کی رفتار سے ہم آہنگ ہونا مشکل رہا۔ رضوان کی اننگز نے بہر حال میچ کو زندہ رکھا اور آخری اوور میں انہوں نے پاکستانی مجموعے کو ایک قابلِ قدر سطح تک پہنچایا ورنہ تو دوسری اننگز میں پورے اوورز پھینکے جانے کا بھی امکان نہیں تھا۔ زمبابوے کی بدقسمتی یہ رہی کہ وہ اپنے تجربہ کار‘ مستند اوپننگ بلے باز برینڈن ٹیلر کی خدمات سے محروم تھے۔ ان کی موجودگی میں اس بیٹنگ لائن کے اعتماد کا عالم کچھ اور ہوتا مگر ان کی عدم موجودگی کے سبب مڈل آرڈر دباؤ میں نظر آیا۔ زمبابوے ٹاپ آرڈر میں ایک بڑی پارٹنرشپ لگنے کے بعد دوبارہ کوئی بھی پارٹنرشپ لگانا مشکل تھا کیونکہ قدرے پرانے گیند کے سامنے اس وکٹ پہ ایڈجسٹ ہونا آسان نہیں تھا اور زمبابوین ٹیم اپنے روٹین کے بیٹنگ آرڈر کے بغیر یہ ہدف حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہی تھی۔ زمبابوین بلے بازوں نے بہرطور ہمت تو خوب دکھائی اور ایک مقام پہ اپنا رن ریٹ بھی اس سطح پہ لے آئے کہ پاکستان کیلئے میچ میں واپسی لگ بھگ ناممکن دکھائی دی۔ عثمان قادر کے پہلے اوور میں تو یہ خدشات اور بھی بڑھ گئے لیکن اس کے بعد عثمان قادر نے اپنا کنٹرول واپس حاصل کیا اور کریگ ایرون کی وکٹ وہ اہم ترین مرحلہ تھا کہ جہاں سے پاکستان کی میچ میں واپسی ممکن ہوئی۔ اور ابھی زمبابوے سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ عثمان قادر نے کپتان ولیمز کو بھی چکرا کر رکھ دیا۔ زمبابوے کیلئے یہ کافی سارے اگر مگر کا قضیہ تھا۔ جیت ان کے بالکل قریب آ کر بھی دور ہو گئی۔ اگر ایروِن یا ولیمز میں سے کوئی ایک بھی بلے باز ڈیتھ اوورز تک وکٹ پہ موجود رہتا تو ایک تاریخی فتح یقینی طور پہ ان کا مقدر ٹھہرتی مگر عثمان قادر ان کی سبھی توقعات پہ بھاری پڑ گئے! ٹیم گرین کی کارکردگی کا یہی انداز سب سے زیادہ دلچسپ ہے کہ جب یہ کارکردگی دکھانے پر آتے ہیں تو اِن کے سامنے اعزازات اور عالمی درجہ بندیاں ڈھیر ہو جاتی ہیں!