پانی رے پانی۔۔۔

لگتا ہے ہم بنیادی طور پر ایک فارغ قوم ہیں۔اگلے کی بنیادوں کو پانی دینا ہو تو ہم سے بہتر طور پر کوئی اور یہ کام انجام نہیں دے سکے گا۔نہ کوئی کام نہ کوئی دھندہ۔اگر کام کا ج ہیں بھی تو بازار مندا۔پھر مندی کا عالم ہمارے ہاں ہمیشہ سے رہا ہے۔اس کی ایک وجہ ہے۔ وہ وجہ یہ ہے ہماری آبادی بہت زیاد ہ ہے۔ ہماری آمدن اور ہمارے ذرائع آمدن کے سامنے بائیس کروڑ کے یہ ہندسے بہت معنی رکھتے ہیں۔پھر ان دو سالوں میں تو کاروبار تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ اوپر کورونا اور پھر لاک ڈاؤن نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔چونکہ ہم فراغت میں بہت مصروف ہیں۔ اس لئے ہماری معاشی ڈیوٹی اگر ہے بھی تو اس کو ادا کرلینے کے بعد ہمیں اول تو معاوضہ پورا نہیں ملتا۔پھر اگر ملتا بھی ہے تو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جس سے ایک آدمی کا ماہانہ یا روز کے خرچے کا حساب لگائیں تو نہیں چلتا۔ ایسے میں وہ ایک کماؤ پُوت پورے گھر کے نصف درجن یا درجن بھر افراد کا خرچہ اٹھائے ہوئے ہے۔ایسے میں ہم نے کوئی نہ کوئی مشغولیت کا کام تو کرنا ہے تاکہ ہماری بوریت دور ہو۔کوئی تو فارغ وقت میں گملوں کو پانی دے رہاہے کوئی کسی کھیل میں اور کوئی کسی کھیل تماشے میں گم ہے۔پھر سب سے محتاط اور بغیر کسی خرچے کے جو مشغلہ ہے وہ بہت آسان بھی ہے۔اگر ان کے ہاتھ پانی کا پائپ چڑھ جائے اور پانی وافر ہو تو یہ اس پائپ سے اپنی دکان یا گھر کے باہر چھڑکا ؤ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ پوری زمین بھیگ جائے گی۔پھر جہاں تک دھول مٹی گرد و غبار کی بات ہے وہ بھی چھٹ جائیں گے۔ گاڑیوں کے ٹائروں سے نکلتا مٹی کا غبار بیٹھ جائے گا۔ مگر یہ لوگ آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔مسلسل پانی گرا کر پانی کو ضائع کر نے کے مرتکب ہو ں گے۔ کہا گیا ہے اگر دریا کنارے بیٹھ کر پانی استعمال کرنا ہوتو وہاں بھی پانی ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ پانی کی قدرتو ان علاقہ مکینوں سے پوچھیں جہاں پانی کا گذر نہیں۔کراچی میں شہری صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔گھروں میں پیسے دے کر پانی بھرواتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں پانی کی فراوانی کے باوجود اس کو فضول میں اڑا دینے والے بہت ہیں۔اس کام میں بچہ بڑا دونوں برابر دلچسپی لیتے ہیں۔ بلکہ اتنا دلکش شغل ہے کہ جس کوموقع لگے وہ پانی کے چھڑکا ؤ کے کام پر لگ جائے گا۔ کسی کو دعوت دیں کہ یار ذرا ان اینٹوں کو پانی دو۔ اس پر وہ غیر معمولی توجہ سے زیرِ تعمیر گھر کے باہر پڑے اینٹوں کے ڈھیر کو گیلا کرنے پر تُل جائے گا۔بلکہ اگر کہیں گندے نالے کا پانی بھی بہتات میں بہتا چلا جا رہاہے تو اس میں سے پانی نکالیں گے۔ راستے کو پانی سے تر کر کے خوش ہوں گے۔ حالانکہ دس بارہ ڈولچیوں کے بعد کام مکمل ہو جائے گا۔ مگر ان کے ہاتھ ڈنڈا اور ڈنڈکے اوپر پلاسٹک کی بوتل کو توڑ کر بنی ڈولچی ہاتھ لگ جائے گی۔ اس پر وہ پوری گلی اور سڑک کو پانی سے گیلا کرنے کا ٹھیکہ از خود لے لیں گے۔بہت دلچسپ ہے یہ کام۔ بلکہ جہاں وائپر کا کام ہے اور جہاں جھاڑو کے ذریعے زمین پر گرا ہوا پائی گند کے ساتھ نالی میں پھینکنے کاموقع ہوگا وہاں یہ خواہ مخواہ پانی جیسی دولت کو ضائع کریں گے۔وہ پائپ سے نکلتی ہوئی پانی کی دھار کو بطور جھاڑو استعمال کر کے وقت بھی ضائع کریں گے اور پانی کا زیاں بھی کرتے جائیں گے۔ذراان علاقوں میں جاکر وہاں کے رہائش کنندہ گان سے پوچھیں۔ جہاں پانی نہیں ہے۔ گاؤں کے بعض علاقوں میں پانی زمین میں مزید نیچے چلا گیا ہے۔ کنوؤں اور باؤلیوں میں پانی برائے نام رہ گیا ہے۔ لوگوں کے گھروں کی بور کی مشینیں خراب ہو گئی ہیں۔کیونکہ انھوں نے مسلسل چلائی اور پانی نہیں تھا سو کتنے گھروں کی موٹریں جل گئیں۔مگر ان کو لاج نہیں آتی۔ یہ پانی کی نلی لے کر سڑک کنارے کھڑے ہوں گے۔راہ چلتے ہوئے کسی پر چھینٹ پڑ گئی تو لڑائی تیار ہو جاتی ہے۔حالانکہ جو مقاصد حاصل کرنا ہیں۔ وہ دس منٹ میں زیادہ سے زیادہ پانی چھڑک کر حاصل ہوجاتے ہیں۔مگر یہ صاحب لوگ سڑک کے تمام گڑھوں میں اتنا پانی گرا دیں گے۔ جیسے بارش ہوئی ہو اور گڑھوں اور کھڈوں میں پانی کھڑا ہوجائے۔ اب موٹریں گذریں گی اور ان کے ٹائروں تلے یہی پانی چکر کھا کر لوگوں کے صاف کپڑوں پر گر ے گا۔ پھر گالم گلوچ کاماحول تیار ہو جائے گا۔فراغت میں سب سے بہترین کام یہی چھڑکاؤ ہے۔ جس میں ہر بندہ مزے لیتا ہے۔ پانی ضائع ہو تا ہے اور ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں بنتا۔چار ہزار اینٹیں کیوں نہ ہوں ان کو کھڑا کر دیں اور خود بے فکر ہو جائیں۔ جب تک پانی سے کام مکمل نہیں ہوگا اور اس پر اضافی ٹائم میں نیچے ڈھنڈ نہیں لگ جائے گی یہ چھڑکا ؤ کام انجام پذیر نہیں ہوسکتا۔مگر بیچارے یہ بھی نہ کریں تو کیا کریں۔ وقت گذاری کیلئے بہت اچھا ہے۔ بلکہ بعض کے معاملے میں تو آوارہ گردی سے تو یہ کام ہزار ہا درجے بہترہے۔بعض اوقات یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ کام کرناہے وہ کرنا ہے سب کچھ کرنا ہے۔مگر بعض حالات میں اس پر توجہ کرنا ہوتی ہے کہ سب کام نہیں کرنے۔ ان میں سے کچھ چھوڑدینا ہیں۔