جنوبی افریقہ سے زمبابوے تک فتوحات کے تسلسل میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے 23 اپریل کو جس قسم کا کھیل پیش کیا‘ وہ ناقابل یقین حد تک خراب جبکہ زمبابوے کی ٹیم نے جس بہترین انداز میں مہمان ٹیم کے مایہ ناز بلے بازوں کو چاروں شانے چت کیا وہ بھی ناقابل یقین ہی تھا۔ بسا اوقات قابل ترین لوگوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اُنہیں آسان چیزیں پسند نہیں آتیں اور وہ ہر وقت کسی نہ کسی چیلنج کی تلاش رہتے ہیں تا کہ وہ مشکل صورت حال میں طبع آزمائی کر کے اپنی صلاحیتوں سے لطف اندوز ہو سکیں اور زندگی کے عمومی لمحوں کو خصوصی بنا سکیں۔ زمبابوے کے خلاف ٹیم گرین کی کارکردگی میں بیٹنگ لائن پر اِسی مشکل پسندی کا بھوت سوار دکھائی دیا۔ ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ اگرچہ درست ثابت ہوا اور پاکستانی باؤلرز نے حریف بلے بازوں کو کریز کے اندر باندھے رکھا۔ نتیجتاً جو مجموعہ زمبابوین ٹیم سکور بورڈ پر جڑنا چاہ رہی تھی‘ اس سے خاصی پیچھے رہ گئی۔ اضافی الجھن یہ بھی تھی کہ جہاں ایک طرف برینڈن ٹیلر کی واپسی زمبابوین ٹیم کے لئے حوصلہ افزا تھی‘ وہیں شان ولیمز کی انجری اور پچھلے میچ کے تقریباً ہیرو کریگ ایروِن کا ان فٹ ہونا بھی میزبان ٹیم کیلئے کسی دھچکے سے کم نہیں تھا۔قابل ذکر ہے کہ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ سے پہلے ہی اور پھر پہلی اننگز کے اختتام پر بھی پاکستان اس میچ میں فتح کیلئے فیورٹ تھا۔ مخالف ٹیم کی رینکنگ‘ دو تجربہ کار کھلاڑیوں کی عدم موجودگی اور سکور بورڈ پر جڑا ہوا نحیف سا ہدف‘ یہ سبھی عوامل پاکستان کی بھاری بھر کم فتح کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ پاکستان ایسے کمزور سے حریف کے خلاف ایسے قلیل سے ہدف کے تعاقب میں شکست کھا گیا؟ عمومی زبان میں کہا جائے تو اسے تساہل پسندی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور یہ تساہل پسندی ہمیں ٹاپ آرڈر کی شاٹ سلیکشن میں نظر بھی آئی مگر تساہل پسندی سے ماورا کوئی چیز تھی جو سکور بورڈ کے اعداد و شمار میں تو نہیں جھلک رہی مگر پاکستانی اننگز کے تحت الشعور میں ہمیں بخوبی دکھائی دی۔ جہاں کوئی پریشر سرے سے موجود ہی نہیں تھا‘ وہاں پاکستانی بلے بازوں نے پے در پے ڈاٹ بالز کھیل کر بذات ِخود دباؤ پیدا کیا اور یوں ایک نہایت ہی آسان سے ہدف کو مشکل بناتے چلے گئے۔ گزشتہ مقابلے کی بات کی جائے تو اُس کے بعد بھی رضوان بتا رہے تھے کہ بابر اعظم اور ان کے بیچ ایک انڈرسٹینڈنگ ہے کہ اگر کوئی ایک جلدی گر جائے تو دوسرا آخر تک رکے رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ جملہ بین السطور مڈل آرڈر کی کوتاہیوں کی چغلی کھا رہا تھا۔ ویسے مڈل آرڈر کی کوتاہیاں تو جنوبی افریقی دورے کے اوائل سے ہی نظر تو سب کو آ رہی تھیں مگر کبھی تفصیل سے زیرِ بحث یوں نہ آ سکیں کہ نتائج عموماً پاکستان کے حق میں آتے رہے اور جیت کی خوشی میں کوئی بھی خامیوں کا تذکرہ سننا پسند نہیں کرتا مگر کبھی تو ضبط کا بند ٹوٹنا ہی ہوتا ہے۔ ہرارے میں پاکستان کی مڈل آرڈر بیٹنگ کی پوری طرح قلعی کھل گئی کہ اگر اوپر کے تین بلے باز اننگز کو آخر تک لے کر نہ چلیں تو اس بیٹنگ لائن میں اتنا دم خم بھی نہیں کہ زمبابوے جیسی باؤلنگ کے خلاف سو رنز بھی کر پائے۔