افغان امن کا راستہ۔۔۔۔

افعانستان کے عوام جنگ وجدل سے اکتا چکے اور وہ ایک پرامن اور خوشحال زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں۔ تو کیا افغانستان میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا؟امریکہ گیارہ ستمبر تک  افغانستان سے انخلاء مکمل کرنے کا کہہ چکا۔ وہ عنقریب اپنی فوج اور اپنا فوجی سازوسامان فضائی یا پاکستان کے زمینی راستے سے نکالنے کا کام شروع اورافغانستان میں موجود امریکی نجی  حفاظتی ٹھیکیداروں سے اپنے معاہدے ختم کرنے جارہا ہے، نیٹو ممالک بھی جولائی کے پہلے ہفتے تک اپنی افواج نکالنے پر غور کررہی ہیں۔  مگر ابھی تک کوئی بین الافغان معاہدہ نہیں ہوسکا ہے۔ ایسے میں اگر غیرملکی فوجیں نکل گئیں تو افغانستان میں امن کی ذمہ داری صرف افغانوں کے کندھوں پر آجائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا افغان گروہ افغانستان میں امن لانے کی خاطررواداری اور مفاہمت دکھانے کیلئے آمادہ ہیں؟افغانستان میں امن کی ذمہ داری یوں تو سب افغان گروہوں کی ہے لیکن موجودہ افغان حکومت اور طالبان کی جانب سے مفاہمت، لچک اورقربانی کے بغیر افغانستان میں امن ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔جب تک موجودہ افغان انتظامیہ مستعفی ہوکر ایک عبوری حکومت کو اقتدار منتقل کرنے اور طالبان جمہوریت اور انتخابات کے ذریعے حکومت بنانے پر آمادہ نہ ہوں بین الافغان مذاکرات کا احیاء مشکل دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے فروری 2020 کے امریکہ طالبان معاہدے کے مطابق یکم مئی تک فوج نہ نکالنے اور گیارہ ستمبر تک ایسا کرنے کے اعلان کے بعد طالبان نے نہ صرف 24 اپریل کو ترکی میں ہونے والے افغان کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا بلکہ غیرملکی فوجوں کے انخلاء تک آئندہ بھی ایسے کسی افغان کانفرنس میں نہ بیٹھنے کا اعلان کردیا۔ چنانچہ ترکی کانفرنس کو ملتوی کردیا گیا ہے اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ کوششیں جاری ہیں کہ جلد افغان مذاکرات شروع ہوجائیں۔امریکہ، چین، روس، پاکستان اور ترکی سمیت  اکثر ممالک  اس پر متفق ہیں کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں اور یہ افغان ملکیتی بین الافغان مذاکرات کے ذریعے ایک سیاسی حل کا متقاضی ہے۔ اس لیے یہ سب ممالک افغانستان میں امن کیلئے فریقین کو بات چیت اور جلد معاہدہ کرنے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ پاکستان نے بھی طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات میں شریک ہوجائیں۔یہ امر خوش آئند ہے کہ افغانستان نے پاکستان پر بے بنیاد الزام تراشیاں کرنے کے بجائے پاکستان سے تعاون کیلئے رابطہ کیا ہے اورپاکستان نے یقین دہانی کروائی کہ افغانستان کا امن پاکستان کا امن ہے اور یہ کہ پاکستان ایک پرامن، خودمختار، جمہوری، مستحکم اور خوشحال افغانستان کیلئے صدق دل سے کوشاں ہے۔ ادھر ترکی، پاکستان اورافغانستان افغان مسئلے کے حل پر ترکی میں باہمی بات چیت بھی کررہے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ رمضان المبارک کے فوراً بعد افغان مذاکرات شروع ہوجائیں۔ دنیا کے اکثر ممالک کو خدشہ ہے کہ اگر افغان گروہوں کے مابین مستقبل کے نظام حکومت پر معاہدہ نہ ہوسکا تو غیرملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان جلد طالبان کے قبضے میں چلا جائے گا۔ اگرچہ امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ افغان فضائیہ سمیت اہم افغان فوجی صلاحیتوں کیلئے مالی اعانت فراہم کرنے اورافغان سیکیورٹی فورسز کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے مالی امداد جاری رکھنے کی کوشش کرے گا لیکن ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس امداد کے باوجود افغانستان کی افواج دو تین سال سے زیادہ طالبان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی۔ایک اندازے کے مطابق طالبان کے پاس اس وقت ساٹھ سے اسی ہزار جنگجو ہیں انکے دیگر سہولت کاروں کو شامل کرکے ان کے جنگجووں کی تعداد ایک لاکھ تک ہوسکتی ہے‘طالبان امریکی اور اتحادی افواج پر معاہدے کے بعد سے حملے نہیں کر رہے تھے لیکن افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف ان کے حملوں کی رفتار اور مقدار گذشتہ دو دہائیوں میں سب سے زیادہ تھی۔ اگرچہ طالبان نے کہا کہ یہ ابھی قبل از وقت" بات ہے کہ کیا وہ واپس جانے والی امریکی افواج کو محفوظ راستہ دیں گے یا ان پر حملہ کریں گے لیکن ماہرین خدشہ ظاہر کرہے ہیں کہ وہ صدر بائیدن کی جانب سے یکم مئی تک انخلا نہ کرنے کی وعدہ خلافی پر غیرملکی افواج کے خلاف شاید یکم مئی سے حملے شروع کریں گے اور افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف بھی حملے تیز کریں کرینگے اسکی وجہ سے بدقسمتی سے زیادہ نقصان افغان عوام کا ہوگا۔ چنانچہ سخت اورزیادہ حملوں کا امکان ہی پریشان کن ہے۔ اسلئے افغان گروہ سب باہمی برداشت اور مفاہمت کا جذبہ دکھائیں، ایک دوسرے کو ختم کرنیکا ناممکن خیال دل سے نکال دیں اور جلد از جلد مستقبل کے افغان آئین، حکومتی نظام، ریاستی ڈھانچے، ملک میں امن اور منتخب حکومت کے قیام کے طریقہ کار پر سمجھوتہ کرلیں۔ ساتھ ہی سب مل کر افغانستان میں موجود امن کی دشمن تخریب کار قوتوں کو ناکام کرنے کیلئے ایک دوسرے کی مدد کریں۔ یہی افغان امن کا واحد راستہ ہے۔