پاکستان کی صنعتوں میں ’ٹیکسٹائل کے شعبے‘ کو ہر دور میں اہمیت دی گئی اور ایک وقت تک تھا جب اِس شعبے سے ہونے والی برآمدات کا حجم دیگر اجناس و اشیا کی برآمدات کے مقابلے 60 فیصد تھا یعنی سب سے زیادہ برآمدات ٹیکسٹائل کے صنعتی شعبے ہی سے ہوتی تھیں۔ یہی وجہ رہی کہ ہر دور حکومت میں یعنی کئی ادوار میں ٹیکسٹائل سے وابستہ صنعتوں کو مشکلات سے نکالنے کیلئے حکومت ’مالی امداد‘ آسانیاں‘ مراعات اور ٹیکسوں میں چھوٹ (بیل آؤٹ پیکجز) دیتی رہی لیکن سالہا سال کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ صنعتوں پر انحصار کر کے پاکستان نے نہ تو اپنی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ کیا ہے اور نہ اِس شعبے کی ترقی کے لئے نجی شعبے نے خاطرخواہ کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے ایک موقع پر صنعت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”پاکستانی برآمدات میں تنوع لانے (اضافے) کیلئے ٹیکسٹائل کے شعبے سے آگے بڑھ کر دیکھنا ہوگا اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو سالانہ برآمدات سکڑ کر ’پچیس سے تیس ارب ڈالر‘ تک ہی ’محدود‘ رہیں گی۔ ڈاکٹر عشرت حسین کا یہ دردمندانہ بیان (توجہ دلاؤ نوٹس) ترجیحات کے تعین اور قومی منصوبہ بندی میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کر رہا ہے لیکن جیسا کہ ہوتا ہے ایسے بہت سارے ’آن دی ریکارڈ‘ بیانات ہر وزیر و مشیر کی جانب سے وقتاً فوقتاً دیئے جاتے ہیں جنہیں بھول بھلا دیا جاتا ہے کیونکہ جو کچھ بھی کرنا ہے وہ حکومت ہی نے کرنا ہے اور اگر حکومت عملی اقدامات کی بجائے اُن عملی اقدامات کی ضرورت پر زبانی کلامی طور پر زور دیتی رہے تو اِس سے پیشرفت (خاطرخواہ بہتری) حاصل نہیں ہو گی۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے کئی ایسے شعبوں کی بھی نشاندہی کر رکھی ہے کہ جنہیں زیادہ توجہ دے کر برآمدات میں غیرمعمولی اضافہ ممکن ہے۔ اِن میں فاضل پرزہ جات کی تیاری‘ مصنوعات کی بجائے خام مال کی تیاری اور ٹیکسٹائل کے علاوہ دیگر اشیا پر توجہ دینا شامل ہے۔ برآمدات میں اضافے کیلئے پاکستان کے فیصلہ ساز جس دنیا (منڈی) کی ضرورت پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں‘ اگر اُس پر نظرثانی کر لیں تو تب بھی بہتری آ سکتی ہے۔ جیسا کہ ہر دور حکومت میں ہمسایہ ملک چین کے ساتھ دوستی (تعلق) کو ہمالیہ (پہاڑوں کے سلسلے) سے بلند‘ سمندروں سے گہرا اور شہد سے زیادہ میٹھا قرار دیا جاتا ہے لیکن چین کے ساتھ دوستی و تعلق کے اِس رشتے سے پاکستان اُس قدر فائدہ نہیں اُٹھا رہا جس قدر چین اُٹھا رہا ہے‘ جس کی نظریں صرف اپنا تجارتی فائدہ ہی نہیں بلکہ خطے اور دنیا پر تجارتی حکمرانی قائم کرنے کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُس نے خطے کے ممالک کے درمیان زمینی راستوں (تجارتی رہداریوں) کے قیام کا نظریہ (بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو) پیش کیا اور جسے براعظم ایشیا سے یورپ تک توسیع دیدی گئی ہے۔ چین کے تجارت و کاروبار کے ذریعے اثرورسوخ میں اضافہ سراسر پاکستان کے مفاد میں ہے کیونکہ اِس پوری حکمت عملی کا ہر راستہ پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے لیکن اصل ضرورت صرف یہ نہیں کہ پاکستان ہمیشہ چین کے عالمی سفارتی اثرورسوخ اور دفاعی و ٹیکنالوجیکل ترقی پر اپنی دفاعی‘ صنعتی و دیگر ضروریات کے لئے انحصار کرے بلکہ چین ہی کی طرح ’کاروباری انداز سے‘ سوچتے ہوئے پاکستان کو چین کی مارکیٹ سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ توجہ طلب ہے کہ اگر پاکستان چین کی منڈی کا صرف ایک فیصد حصہ بھی حاصل کرلیتا ہے تو ہماری برآمدات 23ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔چین کی پاکستان کے قدرتی وسائل میں زیادہ دلچسپی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ صنعتوں سے حاصل ہونے والی مصنوعات کے مقابلے خام صورت میں اجناس بالخصوص اشیائے خوردونوش کے شعبوں سے پاکستان سے درآمدات بڑھانے کا خواہاں ہے۔ گزشتہ برس چائنا اکنامک نیٹ (سی اِی این) کی جانب سے خبر آئی تھی کہ چین پاکستان سے دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی (ڈیری) مصنوعات درآمد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اگر چین پاکستان سے ڈیری مصنوعات کی درآمد میں دلچسپی رکھتا ہے تو اِس کے 2 بنیادی محرکات ہیں۔ ایک تو پاکستان ڈیری مصنوعات کم قیمت ہیں اور دوسرا اُن کا معیار اعلیٰ ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان دودھ کی زیادہ پیداوار کے لحاظ سے عالمی سطح پر چوتھے نمبر پر ہے اور بلاشبہ ڈیری مصنوعات کی صنعت میں بڑی صلاحیت موجود ہے جو پاکستان کے لئے ’سفید سونا‘ ثابت ہوسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے ڈیری مصنوعات کا شعبہ مشکلات کا شکار ہے‘ جسے حکومت کی مراعات و توجہ (بیل آؤٹ پیکج) کی ضرورت ہے۔ اگر ڈیری مصنوعات کی برآمدی صلاحیت و ضرورت کو محسوس کرلیا جاتا ہے تو اِس سے نہ صرف قومی ضرورت کے مطابق دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی معیاری (بنا ملاوٹ) مصنوعات میسر آئیں گی بلکہ برآمدات میں اضافے کی صورت قومی معیشت کو بھی سہارا مل سکتا ہے لیکن ایسا صرف اُسی صورت ممکن ہے جبکہ پاکستان اپنی ساری توجہ صنعتی ترقی کی بجائے زرعی شعبے اور زراعت کے ذیلی شعبہ جات جن میں لائیوسٹاک (مال مویشی) سرفہرست ہیں کو خاطرخواہ توجہ دے۔ اقوامِ متحدہ تنظیم کے ذیلی ادارے ”فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن“ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں (تیس برس) میں دنیا بھر میں دودھ کی پیداوار میں 59فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ دودھ کی سالانہ طلب جو کہ 1998ء میں 53کروڑ ٹن تھی سال 2018ء میں قریب 84کروڑ ٹن تک پہنچ چکی تھی اور اندازہ ہے کہ 2021ء میں یہ طلب 100 کروڑ ٹن یا اِس کے آس پاس ہے۔ عالمی سطح پر دودھ کی کھپت میں اضافہ پاکستان جیسے ملک کیلئے نادر موقع ہے جو دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی مصنوعات (ڈیری پراڈکٹس) کو برآمد کرکے زرِ مبادلہ کما سکتے ہیں۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے! ڈیری مصنوعات کی بڑے پیمانے پر برآمدات کا خواب دیکھنے سے قبل حکومت کو اِس شعبے کی سرپرستی کرنا ہوگی۔ اِسے اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا جس کا مناسب اظہار ’وفاقی و صوبائی بجٹ‘ ہوتے ہیں‘ جنہیں پیش کرنے میں ایک ماہ اور چند دن رہ گئے ہیں۔ فیصلہ سازوں کو زیادہ بڑے برآمدی و تجارتی ہدف کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ صرف دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات کی برآمد سے پاکستان سالانہ تیس ارب ڈالر کما سکتا ہے جو ملک کی مجموعی برآمدات (پچیس ارب ڈالر) سے زیادہ ہے۔