کرکٹ: خبر یہ ہے!

 ٹیم گرین نے زمبابوے (میزبان ٹیم) کے خلاف تیسرے اور فیصلہ کن ’ٹی ٹوئنٹی‘ مقابلوں کی سیریز بھی اپنے نام کی ہے جس میں تین میچ کھیلے گئے اور یہ سیریز دو ایک سے جیتی گئی تو بظاہر یہ غیرمعمولی بات نہیں کہ عالمی ریکنگ میں چوتھے نمبر کی ٹیم اگر گیارہویں نمبر کی ٹیم سے جیت جاتی ہے تو اس میں خبر کیا ہے جبکہ زمبابوے ٹیم نے ہر میچ میں ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ زمبابوے سیریز میں پاکستان ٹیم کے سب سے نمایاں کھلاڑی رضوان رہے جنہوں نے 2 بہترین اننگز کھیلتے ہوئے پاکستان کو فتح دلوائی۔ رضوان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس میچ میں وہ ناکام ہوئے وہاں قومی ٹیم بھی شکست سے دوچار ہوئی۔ رضوان نے جہاں اس سیریز میں 186کی اوسط اور 134کے سٹرائیک ریٹ سے کل 186رنز بنائے وہیں باقی تمام پاکستانی بیٹسمین 90کے سٹرائیک ریٹ سے صرف 201رنز ہی بنا پائے اور یہی وجہ رہی کہ اُنہیں ”شاندار کارکردگی“ کی بنیاد پر سیریز کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا۔رضوان پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں کراچی کنگز کا حصہ تھے جنہیں کھیلنے کا موقع تک نہیں ملتا تھا کیونکہ اُن کا سٹرائیک ریٹ 110 تھا جبکہ محدود اوورز کے ٹی ٹوئنٹی مقابلے چھکوں اور چوکوں کا کھیل ہوتا ہیں۔ بہرحال رضوان کی جگہ بطور وکٹ کیپر تو بنتی تھی لیکن ان کی بیٹنگ ایسی ہرگز نہیں تھی جس کی عموماً کسی ٹیم کو ضرورت ہوتی ہے لیکن پھر حالات بدل گئے اور رضوان کی قومی ٹیم میں واپسی ہوئی‘ جس کے بعد وہ کمال پر کمال کرتے چلے گئے۔ رضوان کے کھیل میں تبدیلی کا آغاز نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ سے ہوا‘ جب دوسرے میچ میں ایک موقع پر انہوں نے اچانک پہلے میچ کے ٹاپ سکورر صاحبزادہ فرحان کو ہٹا کر خود اوپننگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چار نصف سنچریاں‘ 128سٹرائیک ریٹ اور بطور کپتان فائنل میں فتح رضوان کیلئے بہترین نتائج تھے لیکن اس سب کے باوجود بطور اوپنر رضوان کی قومی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی تھی کیونکہ وہاں بابر اعظم فخر زمان اور عبداللہ شفیق پہلے سے موجود تھے لیکن جب نصیب میں کامیابی و کامرانی لکھی ہو تو پھر اسباب بھی بن ہی جاتے ہیں۔ رضوان کے ساتھ یہی ہوا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز سے پہلے تقدیر رضوان کے حق میں ہونے لگی۔ نیوزی لینڈ روانگی سے قبل فخر زمان کو بخار ہوگیا اور یوں وہ اس دورے سے باہر ہوگئے جبکہ پریکٹس کے آغاز پر ہی بابر اعظم اَن فٹ قرار دیئے گئے اور اچانک یہ فکر لاحق ہوگئی کہ فخر زمان اور بابر اعظم کی غیر موجودگی میں اُن کی کمی کون پوری کرے گا؟ اُس موقع پر عبداللہ شفیق کے ساتھ رضوان کو موقع دیا گیا اور ابتدأ میں کرکٹ بورڈ کے اِس فیصلے پر تنقید ہوئی اور جب پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں رضوان نے صرف 17گیندوں پر 17رنز بنائے تو تنقید میں مزید اضافہ ہوا لیکن ان کیلئے ایک اچھی خبر یہ تھی کہ دوسری طرف عبداللہ شفیق‘ حیدر علی اور حفیظ مجموعی طور پر اتنے رنز نہیں بنا سکے اور 157 رنز کے تعاقب میں آدھی ٹیم 39 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئی تھی۔ بہرحال دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں رضوان کے ساتھی عبداللہ شفیق کو بدل کر حیدر علی کو لایا گیا مگر اس تبدیلی کے باوجود نتائج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یوں تین میچوں کی سیریز میں قومی ٹیم دو صفر سے شکست کھا بیٹھی۔ اُس میچ میں بھی رضوان نے کوئی اہم کارنامہ سرانجام نہیں دیا اور بیس گیندوں پر بائیس رنز ہی بنا پائے اور اب صرف ایک میچ باقی تھا۔ اس موقع پر اعظم خان‘ ذیشان اشرف اور کئی دوسرے آپشنز موجود تھے لیکن رضوان کے نصیب اچھے تھے کہ انہیں ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ تب قومی ٹیم کو جیت کیلئے 178رنز 8.5 رنز فی اُوور کے رن ریٹ سے درکار تھے جبکہ رضوان کا اسٹرائیک ریٹ 100 سے بھی کم تھا۔ اپنے پہلے پچیس مقابلوں میں رضوان نے صرف دو چھکے لگائے تھے لیکن اُس ایک میچ میں وہ نہ صرف تین چھکے لگانے میں کامیاب ہوئے بلکہ 150سے زائد کے سٹرائیک ریٹ سے بیٹنگ کرکے انہوں میں قومی ٹیم کو وائٹ واش ہونے سے بھی بچا لیا۔اِس کے بعد قومی ٹیم جنوبی افریقہ گئی جہاں پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں رضوان کو دیکھ کر ایسا لگا جیسے انہوں نے وہیں سے بیٹنگ شروع کی جہاں نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرے میچ میں روکی تھی۔ رضوان پاکستان کی طرف سے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل مقابلوں میں سنچری بنانے والے دوسرے پاکستانی بیٹسمین بن گئے تھے۔ اس سے پہلے یہ اعزاز صرف احمد شہزاد کو حاصل تھا جو انہوں نے 2014ء میں بنگلہ دیش کے خلاف حاصل کیا تھا۔ رضوان نے اس میچ میں تن تنہا ہی قومی ٹیم کو وننگ ٹوٹل تک پہنچا دیا۔ یہ وہ موقع تھا جہاں سے رضوان نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا اور پھر اگلے دونوں میچوں میں بھی انہوں نے بالترتیب اکیاون اور بیالیس رنز کی اننگز کھیلیں اور خود کو بہترین اوپنر ثابت کیا۔ رضوان کا اچھا کھیل جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے دوروں میں بھی جاری رہا اور اس مختصر سے عرصے میں رضوان نے گیارہ ٹی ٹوئنٹی اننگز میں سٹرائیک ریٹ 97سے 127تک اور اوسط کو 17سے 44تک پہنچا دیا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں عالمی سطح پر بیٹنگ اوسط کے اعتبار سے رضوان کا نمبر پانچواں ہے۔ رضوان ٹیسٹ کرکٹ میں تو اچھا کھیل پیش کر ہی رہے تھے لیکن ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں انہوں نے قومی ٹیم کی بڑی مشکل آسان کردی ہے اور اُمید ہے کہ رواں برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور دورہ برطانیہ میں رضوان کی نمایاں بلے بازی کی بدولت قومی ٹیم فتوحات کا سلسلہ جاری رہے گا۔