لوگ گاجر مولیوں کی طرح کٹ رہے ہیں۔ اس پار ہو یا اُس پار۔انسانی آبادی وبال کا شکار۔مگر اس کے باجود ہمارے سنگی بیلی کسی چیز کی پروا نہیں کرتے۔ اگر ان کا رویہ اسی طرح رہا تو قریب ایک طویل لاک ڈاؤن لگے گا۔ جس کی وجہ سے بیروزگاری جوپہلے تھی وہ زیادہ ہو جائے گی۔ اب بھی بازار بند ہیں۔گاہک غائب ہیں۔مگر سوشل تقریبات میں کورونا کے حفاظتی اقدامات کی پروا نہیں کی جاتی۔کہتے ہیں کہ اگر قسمت میں ہوا تو کورونا ضرور لگے گا۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔یہ تو انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ آپ آگ پر ہاتھ رکھ دیں۔ پھر کہیں کہ اگر نصیب میں ہوا تو آگ میرا ہاتھ جلائے گی۔ مگر آگ پر رکھے ہاتھ کے مقدر میں لازمی ہوگا کہ ہاتھ کوجلائے۔ آخر انسان کو عقل ملی ہے۔ جس سے وہ فیصلہ کرتا ہے۔ انسان کو جو چیز ملی ہے اس کے بارے میں اس سے سوال ہوگا کہ اس سے کتنا کام لیا۔آخر یہ کس کو دکھائیں گے۔ بیش قیمت کپڑے انواع و اقسام کی اشیاء جو عید کیلئے خریدی جا رہی ہیں۔ بندہ خود زندہ نہ ہو تو سامان کیا کرنا ہے۔اب آنے والی عید بھی کوروناکی نذر ہو جائے گی۔ لوگ ایک دوسرے سے جو پہلے کتراتے تھے۔ اب اور ایک دوسرے سے دوررہنے کی کوشش کریں گے۔ مگر سمجھ دار لوگ یہ کام کریں گے۔ جو اس کے علاوہ ہیں وہ تو نہ پہلے کورونا کو مانتے تھے اور نہ اب مانتے ہیں۔کھلے عام اور اونچی آواز میں فرماتے ہیں ہم تو کورونا کو نہیں مانتے۔حالانکہ ہمسایہ ملک میں بہت برا حال ہے۔لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں سڑکو ں پر رکھ کر بھاگ گئے ہیں۔ جگہ جگہ لکڑیاں جل رہیں ہیں اور ان میں انسانی لاشیں خاک ہو رہی ہیں۔۔حالانکہ ماسک پہن لینے سے آدھا کورونا تو خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ مگر یہ کسی چیز کو نہیں مانتے۔ہماری قوم تو عادی ہے کہ جس کام سے منع کرو وہی کریں گے۔ ان کو پتا ہوگاکہ یہ ہمارے لئے اچھا نہیں۔مگر کریں گے اور کر کے چھوڑیں گے۔بعض نازک مزاج لوگو ں کا کہنا ہے کہ ماسک پہننے سے ماسک کی ڈوریاں کانو ں کو تکلیف دیتی ہیں۔ مگر کیا جھمکے جو بھاری ہوتے ہیں وہ پہننے سے کان نہیں دکھتے۔ یہ تو پتلی دھاگے نما ڈوریاں ہیں جس کا کوئی بوجھ نہیں۔اگرآدمی ماسک نہ پہنے اور ہسپتال کے کوروناوارڈ کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں آکسیجن کے سیلنڈر کے ساتھ آکسیجن کا ماسک اس کے منہ پہ چڑھا ہو اور وہ آخری سانسیں لے رہاہو۔ دونوں میں سے کون سی بات اچھی ہے۔مگر پھر بھی ہمارے بھائی بند احتیاط کا دامن نہیں تھامیں گے‘ باہر کے مالدار ملکوں میں تو عوام کی بلا کو بھی پروا نہیں۔ وہ چھ ماہ سے لاک ڈاؤن میں ہیں۔ان کو گھر بیٹھے سب کچھ مل رہا ہے۔لندن ہو یا جرمنی کسی کو مالی پریشانی نہیں۔ ہمارے دوست یار رشتہ دار ہیں جو وہاں سے خبریں دیتے رہتے ہیں۔جو برا حال ہمارے ہاں ہے وہ تو کہیں بھی نہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں تعلیم کی شدید کمی ہے۔وہ توتعلیم یافتہ اور باشعور اقوام ہیں ان کو اپنے اچھے برے کا پورا پتا ہے۔ سو وہ احتیاط میں قدم اٹھاتے ہیں۔ مگر ہم اپنا ہی نقصان کرنے والے نادان ہیں۔ جو کسی اچھی بات کو اپنے خلاف سازش سمجھ کردوسری اقوام کو گالیاں دیتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں۔ اس طرح تو زندگی نہیں گذرنے والی۔