کورونا کی وبا میں بازاروں کے اندر قوانین پر عملدر آمد کیلئے فو ج بلا ئی گئی ہے اندازہ یہ ہے کہ کورونا مثبت کیسز کی شرح 40فیصد سے آگے نکل گئی اور روزانہ اموات کی تعداد 160سے آگے بڑھی لو گوں کی طرف سے عدم تعاون اسی طرح جار ی رہا تو امریکہ، بر طا نیہ، سعو دی عرب، ایران اور دیگر ملکوں کی طرح کر فیو کی نو بت بھی آسکتی ہے میڈیا میں دو با تیں زیر بحث ہیں پہلی بات یہ ہے کہ سول انتظا میہ کیوں ناکام ہوئی؟ دوسری بات یہ ہے کہ سیا سی قیا دت کی طرف سے حا لات کی پیش بینی میں کیا کوتا ہی ہو ئی حا لا نکہ کورونا کی ما نیٹر نگ کا نظام مو جو د ہے نیشنل کما نڈ اینڈ آپریشن سنٹر (NCOC) کی طرف سے وفاقی وزیر اسد عمر ہر روز قومی قیا دت کو وبائی مر ض کی صورت حا ل سے پرنٹ اورا لیکٹرانک میڈ یا کے ذریعے آگا ہ کر رہے ہیں اعداد شما ر پوری قوم دیکھ رہی ہے اس کے باو جو د لا ک ڈا ون کے فیصلے میں تا خیر کیوں ہوئی؟ راولپنڈی اور اسلا م اباد کی انتظا میہ کا تجربہ پوری قوم کے تجربات کا نچوڑ ہے، وفاقی دا رالحکومت کے جڑواں شہروں کی سول انتظا میہ کو دوطرح کے مسا ئل کا سامنا ہے پہلا مسئلہ یہ ہے انتظا می افسران پو لیس کی نفری لیکر بازار کے بلا ک اے کو بند کر کے بلا ک بی میں پہنچتے ہیں تو بلا ک اے دوبارہ کھل جا تا ہے انتظا میہ بازار کے 8بلا ک بند کر کے با ہر آتی ہے تو آٹھو ں بلا ک دوبارہ کھل چکے ہو تے ہیں بچوں کی آنکھ مچو لی یا چو ہے بلی کا کھیل سا را دن اسی طرح جا ری رہتا ہے مجبو راً حکومت کو فو ج بلا نے کی ضرور پڑی جہاں تک سیا سی قیا دت کی طرف سے لا ک ڈاؤن کے فیصلے میں تا خیر کا تعلق ہے اس کی نما یا ں وجہ غریب اور دیہا ڑی دار طبقے کو فائدہ پہنچا نا تھا لا ک ڈاؤن کی صورت میں غریبوں کو مصیبت سے دو چار ہو نا پڑتا عوام کی طرف سے انتظا میہ کے ساتھ تعاون کیوں نہیں ہوتا اس کی دو وجو ہات ہیں پہلی وجہ دو دنوں کے لا ک ڈا ون سے پیدا ہو نے والی کیفیت ہے یعنی لا ک ڈاؤن ختم ہوا پھر ڈر کس بات کا؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ حکومت عوام کی زبا ن میں بات نہیں کر تی سب سے زیا دہ زور ایس او پیز (SOPs) پر دیا جا تا ہے سٹینڈرڈ آپر یٹنگ پر و سیجر کا یہ مخفف کسی کی سمجھ میں نہیں آتا اس کی جگہ احتیا طی تدا بیر، وبا سے پر ہیز، جا ں ہے تو جہاں ہے کہا جا ئے تو عوام کی سمجھ میں آجا ئیگی لا ک ڈاؤن کی جگہ بازار بند کی تر کیب استعما ل کی جا ئے، کارو بار بند کہا جا ئے، گاڑیوں پر پا بند ی کہا جا ئے تو عوام اس کی شدت کا احساس کرلینگے عوام اردو اور پشتو بولتے ہیں پنجا بی یا ہند کو بولتے ہیں حکومت انگریزی بولتی ہے درمیان میں ابلا غ کی دیوار حا ئل ہے فو ج کی مدد حاصل کر نے کے بعد لا زم ہے کہ مکمل لا ک ڈا ون کیا جا ئے بڑے شہروں میں کر فیو لگا کر وبائی مر ض پر قابو پا نے کی تد بیر کی جا ئے اس سلسلے میں رمضا ن، روزہ اور عید کوئی بہا نہ نہیں ”جان ہے تو جہاں ہے“۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی