کاغذ کی یہ مہک۔۔۔۔

شاعری کی کوئی اچھی کتاب آئی۔ہم قصہ خوانی پہنچے۔ کتاب لی۔گھر تک مشکل سے دو فرلانگ ہوں گے۔ مگر دروازے میں داخل ہونے سے پہلے ہی تمام کتاب راستے ہی میں پڑھ لی ہوتی۔ کتاب کا اپنا نشہ ہوتا ہے۔بازاروں میں یہ رش نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی اور کوئی مصیبت۔ جس سمت کو جاؤ راستے اپنے بازو کھول کر آن ملنے کی دعوت دیتے۔ کیا زمانہ تھامگر نہ رہا۔ وہ زمانہ نہیں وہ لوگ نہیں وہ سکون اور خاموشی کی فضا سب کچھ غارت ہو چکا ہے۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ کتابوں کو اب کوئی نہیں پڑھتا۔ افسوس کرتے ہیں کہ کاش وہ زمانہ پھر سے لوٹ آئے۔ مگر ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ایک چیز ختم ہوتو جاتی ہے مگر وہ اپنے نئے رنگ و روپ میں ظاہر ہوکر زمانے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہوتی ہے۔ وقت کبھی واپس مڑ کر نہیں آتا۔ اب اگر کتابوں کی وہ عزت اور توقیرباقی نہیں رہی تو یہ اس زمانے کی اپنی ضرورت ہے۔جس کو بندہ اگنور نہیں کر سکتا۔کسی دوست سے رشتہ دار سے کتاب مانگنا اور پھر وقت پر اس کو واپس کرنا ہوتا تھا اگر وہ کتاب نہ دے ہم روٹھ جاتے۔ وہ بھی تو اس کتاب کو بار بار نہیں پڑھتے تھے۔ بس ایک بار جو پڑھ لی تو شوکیس میں ڈال دی۔ پھر وہ کتاب جب تک اس کو کیڑانہ لگ جائے وہیں گلتی سڑتی رہتی۔لیکن ان سے اتنا نہ ہوتا کہ وہ کسی اور کو جو اس کی چاہت کرتا ہے پڑھنے کیلئے دے۔ اگر ویسے ہی دے کہ جاؤ تمہاری ہوئی تو بھی اس میں کچھ ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے تھی۔ کیونکہ کتنے لوگوں کے گھروں سے کتابیں ان کے بعد از مرگ نکلیں اور سیدھا قریب کی بڑی دکان میں ان کی اولاد کے ہاتھوں بکنے کیلئے پہنچ گئیں۔ یہ ہمارا آنکھوں دیکھا سین ہے۔مگر وہ جیتے جی کسی کو تحفے کے طور پر دینا تو درکنار یونہی پڑھنے کو بھی نہیں دیا کرتے تھے۔ ہم نے اپنی لائبریری میں سے سینکڑوں کتابیں اٹھا کر یہاں وہاں لائبریریوں میں رکھوا دیں۔ سوچا کہ جب پڑھ لیں اور قریب قریب اندازہ ہے کہ دوبارہ پڑھیں گے نہیں۔ پھر کیوں نہ اس کو دی جائیں جس کو ان کی چاہت ہے اور جنھیں ان کی ضرورت ہے۔کتابوں کا وہ نشہ روٹھ گیا ہے۔اب اگر کوئی گھرمیں کتابوں کا ڈھیر سجا کرکہتا ہے کہ میں نے لائبریری کھول رکھی ہے۔ مگر کسی ایک کو ایک کتاب بھی نہیں دیتا تو کاہے کی لائبریری۔یہ کتابوں کو کیڑا لگانے کی قبل از وقت کوشش کانام ہے۔کتابوں کو حبس میں رکھنے کی سعی ہے۔دوسری بات جو ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان تمام باتوں کے باوجود اب توکتابوں کی ضرورت ہی سرے سے نہیں رہی۔ کتابوں کا وہ ٹہکا وہ رعب جو پہلے تھا وہ دم توڑ چکا ہے۔اب تو کسی کو کتاب اٹھا کروقت ضائع کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔جو اب تک آچکی ہیں ان کتابوں کو آپ یوٹیوب پر گوگل میں دیکھ سکتے ہیں دوستوں کے ذریعے وٹس ایپ پرمنگوا سکتے ہیں۔بلکہ فیس بک پرخود دوست ہی دعوت دیتے ہیں کہ میرے پاس فلاں ضروری کتاب موجود ہے اگر کسی کو چاہئے تو مجھ سے پی ڈی ایف میں منگوا لیں۔اب تواور ہی زمانے ہیں۔بلکہ کتاب کی ضرورت تو گوگل پر بھی کم محسوس ہوتی ہے۔ جس مسئلے پر آپ کو جانناہے اس مسئلے کویو ٹیوب پر ڈال دیں آپ کو وہاں سے سب کچھ با آسانی وافر مقدار میں دستیا ب ہو جائے گا۔ یوٹیوب پر توآپ کو اس مسئلے پرلیکچر دیتے ہوئے مل جائیں گے۔ ایک نہیں دس بیس اور سارے کے سارے علامہ۔ بلکہ کتاب کوپڑھ کر کنفیوز ہونے کی ضرورت کیا ہے۔وہ آپ کو اس مسئلے اچھی خاصی سمجھ کے ساتھ سمجھا دیں گے۔اس طرح کہ پھر آپ کو بھول بھی نہیں پائے گا۔ ایک دفعہ سمجھ نہ آئے تو دوسری بار دیکھ لیں آپ جان جائیں گے۔ مگر ہر آدمی کی اپنی فیلڈ ہے وہ جس میدان سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر اس کامسئلہ اسی قسم کاہے تو اس کو یوٹیوب کے لیکچرار صاحبان خاصے ٹھیک ٹھاک طریق سے سمجھا دیں گے۔ مگر دلچسپی کا ہونا ضروری ہے۔کوئی اگر دلچسپی نہیں رکھتا تو پہلے اس کواستاد ڈنڈے کے زور پر سمجھاتے تھے۔لیکن اب تو ڈنڈے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ جس کوپڑھنا ہے وہ خود گوگل کی طرف آئے گا اور جس کو کچھ لینا دینا نہیں وہ اپنے آپ کو غافل رکھے گا۔ ویسے بھی سکولوں میں سے مار دھاڑ کے سین کاٹ دیئے گئے ہیں اب تو ٹیچر کا مارناتو دور کی بات کسی بچے گھور کردیکھنے کی بھی اجازت نہیں۔۔ایسے عالم میں جس کو پڑھنا ہے وہ پڑھے گا جس کو نہیں پڑھناوہ مزے کرے گا۔ ایسی صورت میں کہ دنیا پر اصل بادشاہی یوٹیوب کی ہے۔کسی کا دماغ خراب ہوگا جو پرانی کتابوں کو پڑھے گا۔ جن کو لوگوں نے ترک کر دیا ہے۔کیونکہ اس میں اپ ڈیٹ نہیں آ رہے۔سو اس کو لازمی ہے کہ وہ یوٹیوب پرسر چ کر کے کتاب کو نئی شکل کے ساتھ دیکھ لے۔پھر اس سے لنک کرتی ہوئی اورکتابیں بھی پڑھ لے۔کتابوں کی ریڈرشپ کم نہیں ہوئی پہلے سے سینکڑوں گنا زیادہ ہو چکی ہے۔مگر یہ ریڈر شپ موبائل پر ہے۔ ایسے میں کہ گھرمیں کمپیوٹر ہو اور ہاتھ میں ہزاروں روپوں کا ٹچ موبائل ہو کسی کوکیا پڑی ہے کہ وہ کتاب کویوٹیوب پر نہ دیکھے اور لائبریریوں میں جا کر ڈھونڈے۔یہ کتابوں کاآخری آخری دور ہے جو گزر رہا ہے اور گزرتے گزرتے جلد گزر جائے گا۔